آئے دن بڑھتی مہنگائی کے علاوہ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں میں شدید اضافہ ہے۔ عوام یہ تو جانتے ہیں کہ بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کیا ہے لیکن بہت کم کسی کو اس کا علم ہوگا کہ اس بل کی مد میں ان سے کون کون سے ٹیکس لیے جارہے ہیں۔
بجلی کے بل کا تعین صارف کے استعمال شدہ یونٹس کی بنیاد پرکیا جاتا ہے یعنی جتنے یونٹ استعمال کریں گے اتنا ہی لمبا چوڑا بل آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:
ٹک ٹاکر حریم شاہ نے صارفین سے نسیم شاہ کا نمبر کیوں مانگا ہے؟
اس کے علاوہ بجلی کے بل کا ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو وجب الادا رقم ہوتی ہے ، دوسرا براہ راست حکومتی محصولات ہیں جوصارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ’فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ‘ بھی ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع مثلاً کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پرمنحصرہوتی ہے۔ اس کا تخمینہ ہرماہ لگائے جانے کے بعد رقم صارف سے وصول کی جاتی ہے۔
اس ’ایڈجسٹمنٹ‘ میں روپے کی قدربھی بڑی اہمیت رکھتی ہے جو دن بدن گھٹتی چلی جارہی ہے۔
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ گردشی قرضہ کم کرنے کیلئے ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 43 پیسے صارفین وصول کیے جاتے ہیں۔
کراچی کے صارفین کو بتاتے چلیں کہ کے الیکٹرک یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پروصول کرتی ہے۔
اس طرح سے ’کوارٹرلی (ہر3 ماہ بعد )ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘’ یا ’ ڈی ایم سی’ کی مد میں صارفین کی جیب پر مزید ڈاکا اس وقت ڈالا جاتا ہے جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرے۔
مزید چند اخراجات یا ٹیکس براہ راست حکومت عائد کرتی ہے جن کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بجلی بل میں سب سے زیادہ ٹیکس 18 فیصد ٹیکس جنرل سیلزٹیکس(جی ایس ٹی) کی مد میں وصول کیاجاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر صارف ٹیکس فائلرنہیں ہے تو پھربجلی بل میں انکم پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ انکم ٹیکس 25 ہزار روپے سے زائد بل پرعائد کیا جاتا ہے جو مجموعی بل کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔