ایمان اور امیون۔۔۔ دعا اور دوا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خدائے بزرگ و برتر نے تو ناقابل شمار کہکشاؤں میں ایک چھوٹی سی دنیا اپنی سب سے اعلیٰ تخلیق حضرت انسان کے لیے مسخر کی جہاں آب و ہوا، چرند و پرند،نباتات وحیوانات اور جمادات و خلیات نسل انسانی کی ناز برداریوں میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔

وائے افسوس کے نسل انسانی کی سرکشی نے ان خدائی خدمتگاروں کو پاؤں تلے روندا اوراپنی موت کا آپ سامان کیا۔ سرکش دنیا میں آج جرائم کی شرح انتہائی کم درجے پر ہے۔

قتل و غارت گری تھم گئی، لوٹ مار نہ ہونے کے برابر ہے اور اب انسان کے ہاتھوں انسان کے مارے جانے کے واقعات بھی رونما نہیں ہورہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود کرہ ارض پر موت کا رقص جاری ہے اور اس بار قاتل انسانی حرص و لالچ اور ہوس طاقت و اقتدار نہیں بلکہ ایک ننھا منھا سا وائرس ہے جسے انسانی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔

کورونا وائرس کے نام سے جانے جانے والے اس مہلک وائرس کی سفاکی کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار سے لگایا جاسکتا ہے جس کے تحت مورخہ 3 اپریل تک اس وائرس نے 10 لاکھ سے زائد انسانوں کے جسم میں ڈیرے ڈال کر انہیں کووڈ-19 نامی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔

جب کہ اب تک یہ بیماری 50 ہزار سے زائد مریضوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے۔کورونا وائرس نے دنیا کے ّگلوبل ویلیجٗ ہونے کا خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔

محض تین ماہ میں دنیا کے 200 سے زائد ممالک اور علاقوں میں پھیل جانے سے اس مہلک وائرس کی سبک رفتاری کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کورونا وائرس اپنے شکار سے پھپھڑوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے جس سے مریض کو سانس لینے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ وینٹی لیٹر تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ وائرس انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے، متاثرہ انسان سے کسی طرح صحت مند انسان کے ہاتھ پر لگ جائے تو ہاتھوں کے ذریعے ناک، کان اور منہ تک پہنچ کر جسم میں داخل ہونے کا راستہ نکال لیتا ہے اور اپنا پہلا مسکن حلق کو بناتا ہے اور اگلا پڑاؤ پھپھڑے ہوتا ہے۔

مریض میں دو ہفتوں کے درمیان بخار، خشک کھانسی اور نزلہ جیس علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جب کہ سانس لینے میں دقت کا سامنا ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس وائرس کی دوا دریافت ہونے، تجربات کے مراحل سے گزرنے اور مارکیٹ میں دستیاب ہونے میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں۔

ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ جس مہرباں خدا نے کائنات کی ہر شے کو انسان کے لیے مسخر کردیا کیا وہ اپنے نائب کو اس قاتل وائرس کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ کیا وہ دوا یا ویکسین کی ایجاد تک انسانوں کو یوں سسک سسک کر مرتا ہوا دیکھے گا تو جواب ہے نہیں۔ ہرگز نہیں۔

جس زمانے میں میڈیکل سائنس تو کیا سائنس کا بھی دور تک ذکر نہ تھا اس وقت بھی انسان بیمار ہوتے تھے اور صحت یاب ہوکر بیماری سے چھٹکارہ بھی پالیا کرتے تھے۔ تو انسانوں کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی تھی جس سے وہ بیماریوں کو مات دے دیا کرتے تھے۔ وہ قوت تھی انسانی جسم میں موجود مدافعتی نظام۔ ایسا مربوط نظام جو جسم میں داخل ہوکر بیماری کا سبب بننے والے اینٹی جین کو پہچان کر اسے تباہ کردیتا ہے۔

مدافعتی نظام یعنی امیون سسٹم 5 اہم اعضا اور گلینڈ کے مربوط نظام کے تحت کام کرتا ہے جس میں اول تھائمس گلینڈ جو پھپھڑوں کے درمیان اور گردن سے کچھ نیچے ہوتا ہے۔ دوم تلی جو اوپری شکم میں واقع ہے۔ سوم بون میرو جو ہڈیوں میں ہوتا ہے، چہارم لمف نوڈز جو جسم میں ہرجگہ موجود ہیں اور پنجم سب سے اہم خون کے سفید خلیات۔

خون کے سفید خلیات جنہیں لیوکوسائٹس بھی کہا جاتا ہے ایک طرح سے ہمارے جسم کا وزارت دفاع اور اس کے ماتحت جسم کی محافظ فورس ہے۔

خون کے سفید خلیات میں موجود فیگو سائٹس جسم میں داخل ہونے والے مضر جراثیم (اینٹی جین) کو کھاجاتے ہیں جب کہ نیوٹروفل ایسی بٹالین ہے جو صرف بیکٹریا کو مارتی ہے۔

دوسری جانب ایک اور پولیس فورس لمفو سائٹس دو حصوں یعنی ٹی- لمفوسائٹس اور بی- لمفوسائٹس میں تقسیم ہوکراینٹی باڈیز بناتی ہیں اور جراثیم کو تباہ کردیتی ہیں اور یوں انسان بیماری سے جنگ جیت جاتا ہے لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا، جہاں جسم کا مدافعتی نظام جراثیم کے سامنے کمزور پڑجائے تو وہاں دوا ہتھیار بنتی ہے۔

کورونا وائرس کی شرانگیزیاں اسی لیے بھی عروج پر ہیں کہ اس کی کوئی دوا تاحال ایجاد نہیں ہوسکی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ انسان کے مدافعتی نظام نے بھی خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور 80 فیصد مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔

اسی لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ دوا یا ویکسین کی ایجاد تک اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنائیں کیوں کہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا وائرس آپ تک پہنچ گیا تو زندگی کی جیت میں قوت مدافعت ہی واحد ہتھیار ثابت ہوگئی تو آئیں اپنے اس قدرتی ہتھیار کو تیز کرلیں۔

قوت مدافعت میں اضافے کے لیے جن چیزوں کا زیادہ استعمال کیا جانا چاہیئے وہ سبزیاں اور پھل ہیں اور خاص طور پر وہ جن میں وٹامن سی موجود ہوں۔ وٹامن سی کی گولیاں بھی دستیاب ہیں لیکن انہیں ہمیشہ وٹامن ڈی کے ساتھ لینا چاہیئے۔ اس کے علاوہ خشک میوہ جات بھی بہترین غذا ہیں۔

سگریٹ نوشی سمیت ہر قسم کا نشہ بند کردیں، مرغن جسم کو بوجھل بنا دیتی ہیں۔ ان سے دور رہیں۔ ذہنی دباؤ امیون سسٹم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اس لیے تناؤ سے بچیں۔ اپنے رب پر کامل یقین رکھیں جس نے آپ کے جسم میں جراثیموں سے مقابلے کے لیے خودکار نظام رکھا ہے۔

تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ خدا سے لو لگانے والے ذہنی دباؤ سے دور رہتے ہیں اور یقین واثق ان کے امیون سسٹم کو مزید طاقتور بناتا ہے۔

ایمان کی طاقت، صحت بخش غذا اور تھوڑے سے پرہیز سے امیون سسٹم کو توانا کریں اور دوا کے سا تھ ساتھ دوا کی تدبیر بھی جاری رکھیں۔

یاد رکھیں اللہ کے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ

وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ

یعنی جب میں بیمار ہوتا ہو تو وہی مجھے شفا دیتا ہے

Related Posts