اسلام آبادکی مقامی عدالت نے سابق چیئرمین ناداراطارق ملک کودہری شہریت چھپانےکےکیس میں 5سال 4ماہ بعدبےگناہ قراردیتےہوئےمقدمہ خارج کرنےکاحکم دےدیا۔
جج شائستہ خان کنڈ ینے اپنے فیصلے میں حکم دیاکہ طارق ملک کے خلاف 12 مئی 2014 کو درج کردہ ایف آئی آر خارج کی جائے، طارق ملک کے خلاف پاسپورٹ ایکٹ 1974 کے سیکشن ون اے اور سی کے تحت درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھاکہ انھوں نے دہری شہریت اور گورنمنٹ سرونٹ ہونا چھپایا تھا۔
جس کےبعد طارق ملک نے نادرا کے چیئرمین شپ سے 2014 میں استعفیٰ دے دیا تھا،انہوں نےرواں برس11جولائی کو ایف آئی اے کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ انھوں نے دہری شہریت نہیں چھپائی، وہ نائیکوپ کارڈ رکھتے ہیں اور16 اپریل 2010 کومشین ریڈایبل پاسپورٹ کا فارم جمع کراتے ہوئے اس کا ذکر کیا، تحریری فیصلے کے مطابق نادرا نے بھی طارق ملک کے نائیکوپ کی تصدیق کی۔
سابق چیئرمین نادرا کے وکیل ایڈووکیٹ قوسین مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جب 2013 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کے موکل کے خلاف رٹ پٹیشن نمبر 4451 میں کیس ہاری تو اس نے نے جلد بازی میں غلط اور من گھڑت الزامات عائد کر دیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ بظاہر جب مدعی نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا تو غیر معمولی رفتار سے ایک ہی دن میں تمام ایکشن لیا گیا جو بعد ازاں خودساختہ نظر آ رہا ہے.
طارق ملک کےخلاف مقدمہ مبینہ طور پر اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے حکم پر درج کیا گیا تھا، طارق ملک جواس وقت اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہیں، انہوں نے ایف آئی آر سے اپنا نام خارج کرانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور عدالت سے رجوع کیا تھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ میرے حق میں آیا ہے تاہم پاکستان میں حصول انصاف کے لیے مروجہ طریق کار بذات خود ایک سزا کے مترادف ہے، جن لوگوں نےان پر جھوٹے اوربےبنیادالزامات لگائے کیا ان کوسزا ملے گی؟