الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2نئےارکان کی تقرری کےخلاف کیس میں اسلام آبادہائیکورٹ میں جواب جمع کرادیا، الیکشن کمیشن نے دو نئے ممبران کی تقرری غیر آئینی قرار دے دی۔
سندھ اوربلوچستان کے اراکین کی تقرری پر حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ اسلام آباد ہائيکورٹ ميں جمع کئے گئے جواب میں الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا ہے کہ تقرری آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ارکان سے حلف لینے سے انکار کرچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کااسلام آبادہائیکورٹ میں اپنےجواب میں کہناتھا کہ صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی اور پارلیمانی کمیٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے کمیشن کے دو اراکین خالد محمود صدیقی اور منیر احمدخان کاکڑ کی تعیناتی کی،چیف الیکشن کمشنرنے23اگست کو سیکریٹری پارلیمانی امور کو اس حوالے سے آگاہ بھی کر دیاتھا۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ حلف وہ لے سکتا ہے جو بطور ممبر تعینات تصور کیا جائے جب کہ صدر کی جانب سے دو ممبران کا تقرر تعیناتی کے تحت نہیں آتا۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے مؤقف اپنایا کہ صدر، وزیراعظم اور وزارت پارلیمانی امور کا جواب جمع نہیں ہو سکا ہے، آئندہ 10 روز میں جواب جمع کرادیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن فنکشنل ہو، یہ ارجنٹ معاملہ ہے جلدی جواب جمع کرائیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بلوچستان سے منیر احمد کاکڑ اور سندھ سے خالد محمود صدیقی کو الیکشن کمیشن کا ممبر تعینات کیا تھا۔
تاہم اگلے ہی روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے صدر عارف علوی کی جانب سے تقرر کردہ الیکشن کمیشن اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ان 2 اراکین کی تعیناتی کو آئین میں اراکین کی تقرری کے لیے درج آرٹیکل 213 اور 214 کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر وکیل جہانگیر خان جدون کی درخواست پر سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا۔