معیشت، خدا، اور داتا صاحب

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بدستور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ پچھلے سال ستمبر کے آخر میں اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کا چارج سنبھالتے ہی دعویٰ فرمایا تھا کہ وہ ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لائیں گے۔ تب ڈالر 234 روپے کا تھا۔

آج انہیں وزارت خزانہ کا چارج سنبھالے چار ماہ ہوچکے۔ ڈالر اب 255 سے اوپر کھڑا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ستمبر میں جب اسحاق ڈار وطن واپس لوٹے تھے تب اس وقت کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اس وزارت میں پانچ ماہ ہوئے تھے۔ اور اسحاق ڈار ان کی کار کردگی کے ردعمل میں گویا یہ کہہ کر لوٹے تھے کہ وہ اہل وطن کو لالٹین پکڑنے کا وہ درست طریقہ دکھائیں گے جس سے ڈالر کی قیمت نیچے آئے گی۔

اگر چار ماہ کی کار کردگی یہ ہے کہ جس ڈالر کو مفتاح اسماعیل 234 روپے پر چھوڑ کر گئے وہ اسحاق ڈار کے لالٹین پکڑنے سے 255 کا ہوچکا تو اس کا مطلب کیا نکلتا ہے؟ مطلب بہت سیدھا اور واضح ہے۔ مسئلہ لالٹین نہیں بلکہ اسے پکڑنے سے حل ہونا تھا جس کی پیدا کردہ سیاسی بے یقینی نے ملک کو اس صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ اور اسے پکڑنے کی پی ڈی ایم تا دم تحریر ہمت ہی نہیں دکھا پا رہی۔

ڈالر تو قابو نہیں آرہا، مریم نواز لاہور آگئی ہیں۔ نون لیگ ان کی واپسی پر کچھ اس انداز سے جشن منا رہی ہے جیسے وہ جلاوطنی ختم کرکے تشریف لائی ہوں، حالانکہ ابا جی سے ملنے گئیں تھیں، ابا جی سے مل کر آگئیں۔ اس میں استقبال اور دھوم دھڑکے والی کیا بات تھی؟ یہ بات ہمیں تو سمجھ نہیں آئی۔ ہاں ! یہ ممکن ہے کہ ڈالر اور اسحاق ڈار سے توجہ ہٹانے کے لئے اس ہلے گلے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ مگر تابکے؟ زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن۔ اس کے بعد توجہ ایک بار پھر اسحاق ڈار اور ڈالر پر ہوگی۔ تین روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے بیان دیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اسی ماہ ہوگا۔ سچ پوچھئے تو ہمیں تو شک ہے وزیر اعظم شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ مہینے کا تقریباً اختتام ہے۔ یا پھر ممکن ہے اسحاق ڈار کے ملکی معیشت خدا کے حوالے کرنے کا یہ اثر ہو کہ وزیر اعظم نے ہجری مہینہ مراد لیا ہو۔

ہجری مہینے کا تو ابھی آغاز ہے۔ ہر چند کہ مذہبی ٹچ پر پی ٹی آئی سربراہ عمران خان اپنی اچھی خاصی اجارہ داری قائم کرچکے مگر ایمرجنسی میں شریف برادران بھی ٹوپی اوڑھنے اور تسبیح پھیرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ بالخصوص ڈار صاحب تو خیر سے وقتاً فوقتاً خود کو داتا صاحب کے آستانے کا مجاور بھی باور کراتے ہیں۔ مگر صد شکر کہ انہوں نے ملکی معیشت بھی اس لاہوری لاڑکے کی طرح داتا صاحب کے سپرد نہیں کی جس نے خانہ کعبہ کے سامنے سے اپنے ابو جی کو واٹس ایپ کیا تھا کہ جب سے مکہ آیا ہوں طبیعت تھوڑی خراب چل رہی ہے، پلیز داتا صاحب کے مزار پر جاکر میری صحت کے لئے دعاء فرما دیجئے۔

ایسا ہرگز نہیں کہ ہم مزاروں سے معیشت ٹھیک ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں مگر یوں کہ بندہ اگر شاہ محمود قریشی کی طرح کسی تگڑے مزار کا مجاور ہو تو اس کے اور اس کے جملہ اہل خانہ کے وارے نیارے رہتے ہیں۔ مزار اور معیشت کے زاویے سے سوچیں تو عمران خان نے خاور مانیکا سے غلط چیز حاصل کی۔ وہ بابا فرید کے مزار کا قبضہ حاصل کر لیتے تو کم از کم نون لیگ کے اس سوال سے تو جان چھوٹ جاتی کہ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟

ایک ہی بار اتنا سا جواب کافی ہوجاتا کہ وہی جو شاہ محمود قریشی کا ہے۔ جبکہ یہ فائدہ بونس میں ہوجاتا کہ سب ان کے حقیقی “ماہر رحونیات” ہونے کا یقین کر لیتے۔ اس ملک میں تو کروڑوں لوگ مزاروں کی نسبت سے چرسیوں کو بھی پہنچا ہوا بزرگ مان لیتے ہیں، خان صاحب کو بھی کوئی مشکل ہی پیش نہ آتی۔

مزاروں کی آمدنی کا ایک زبردست سیاسی فائدہ اور بھی ہے۔ نیب کسی مجاور پر یہ دعوی نہیں دھر سکتی کہ تمہارے اخراجات تمہاری آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کون مائی کا لعل ہے جو تخمینہ بھی لا سکے کہ ایک بڑے مزار سے کتنی آمدنی ہوتی ہے؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ رحونی دنیا کے ملک ریاض ہوتے ہیں۔ کام دونوں پلاٹوں اور گھروں کا ہی کرتے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ ملک ریاض والی ہاؤسنگ سکیم پاکستان میں جبکہ ان مجاوروں کی ہاؤسنگ سکیم جنت میں پائی جاتی ہے۔

لگ بھگ پوری مسلم دنیا میں سب سے زیادہ پلاٹ اسی ہاؤسنگ سکیم کے فروخت ہوتے ہیں۔ اب جنت والے پلاٹ کا قبضہ ملے نہ ملے اس سے رحونی ملک ریاضوں کا کیا؟ ان کے مطلب کی چیز یہ ہے کہ قیمت وہ اسی دنیا میں وصول فرما لیتے ہیں اور قبضہ نہ ملنے پر کسی احتجاجی مظاہرے کا سرے سے امکان ہی نہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ملکی معیشت ایسے موقع پر خدا کے سپرد کی گئی ہے جب پٹواری یو ٹیوبر اس بات پر ناچ رہے تھے کہ جنیوا ڈونر کانفرنس سے  11 ارب ڈالرز حاصل ہوئے ہیں۔ اب اتنی عقل یوٹیوبر کہاں سے لائے کہ ان  11 ارب ڈالرز کی خبر کا ڈالر کی قیمت پر کوئی خوشگوار اثر پڑنے کے بجائے یہ نتیجہ کیوں نکلا کہ ڈالر مزید مہنگا ہوگیا؟ اور صورتحال یہ کیوں ہے کہ جو اسحاق ڈار اس بات پر معترض ہوا کرتے تھے کہ مفتاح اسماعیل پیٹرول کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے اب خود بھی پیٹرول کی قیمت میں 35 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے؟ ایک پٹواری یوٹیوبر تو مستقل یہ واویلا مچائے ہوئے ہے کہ عمران خان نے پنجاب اسمبلی اس مبارک دن تڑوائی جب جنیوا کانفرنس سے  11 ارب ڈالر ملنے کی خبر آئی۔ خیرات ملنے والا دن مبارک کس طرح ہوسکتا ہے؟ یہ راز یا تو کسی مزار کے مجاور کو معلوم ہوسکتا ہے یا پھر یوٹیوب والے شاہ دولے کی چوہوں کو۔ مالک کا شکر کہ ہم ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں۔

Related Posts