قرآنِ پاک کی سورۃ القصص کی آیت نمبر 24 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا بیان کی گئی ہے جب آپ علیہ السلام جلا وطن ہو کر مدین میں پہنچے تھے۔ اِس دُعا کے ذریعے خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں کچھ غور کرنے کی باتیں سمجھائی ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا اہم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اِس دُعا کے پیچھے کا قصہ کیا تھا اور وہ کیسے وقوع پذیر ہوا۔
مصر میں ایک مصری شخص کے الجھنے کے دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر اس کا قتل ہوگیا جس کے نتیجے میں آپ نے مصر چھوڑ دیا اور ایک مطلوب کے طور پر فرعون کی سپاہ کو حکم ملا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی معاذ اللہ قتل کردیا جائے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی اور رہنمائی کی کہ آپ مدین کی طرف چلے جائیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین پہنچے تو یہاں آ کر تھکاوٹ اور بھوک پیاس کے باعث آپ جب ایک جھیل پر پانی پینے لگے تو آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ مَردوں کا ایک گروہ اسی جھیل کے سامنے اپنے جانوروں کو پانی پلانے کیلئے موجود تھا۔
عین اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو نوجوان خواتین کو دیکھا جو مردوں کی بھیڑ سے دور اپنے جانوروں کے ساتھ جدوجہد میں مصروف تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام خواتین کے قریب پہنچے تاکہ ان کا حال معلوم کرسکیں جبکہ مذکورہ خواتین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ اپنے جانوروں کوجھیل سے پانی پلانے سے قبل وہ جھیل پر پہلے سے موجود مردوں کے گروہ کی روانگی کا انتظار کرنا چاہتی ہیں۔ خواتین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی بتایا کہ ان کے والد بے حد ضعیف ہیں جو اپنے جانوروں کو پانی پلانے کیلئے جھیل تک نہیں لاسکتے، اس لیے دونوں خواتین کو یہ کام کرنے کیلئے خود آنا پڑا۔
خواتین کا یہ قصہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام رضاکارانہ طور پر ان کے جانوروں کو جھیل تک لے جاتے ہیں، پانی پلاتے ہیں اور پھر دونوں خواتین کے پاس واپس لے آتے ہیں۔ جانوروں کو خواتین کو واپس کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے دور چلے جاتے ہیں اور ایک سایہ دار جگہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس سایہ دار پناہ گاہ تک پہنچنے سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور وہ دعا کرتے ہیں جو سورۃ القصص کی آیت نمبر 24 میں مذکور ہے:فَسَقٰى لَـهُمَا ثُـمَّ تَوَلّــٰٓى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَىَّ مِنْ خَيْـرٍ فَقِيْرٌ (24) ترجمہ: پھر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف ہٹ کر آیا پھر کہا کہ اے میرے رب تو میری طرف جو اچھی چیز اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔
دُعا کرنے کے اسباب میں سے ایک اِس گناہ کا احساس تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مصر میں ایک شخص قتل ہوگیا تھا اور آپ علیہ السلام سمجھتے تھے کہ اِس گناہ کا کفارہ لازمی ہوگا جبکہ یہ آیت کسی غلطی کی تلافی یا برے کام کے ازالے کیلئے اچھائی کے مواقع کی تلاش کا پتہ دیتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ بندے اور پیغمبر کسی اچھے کام سے ٹھوکر نہیں کھاتے تھے بلکہ انہیں یہ ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ موقع کوئی اچھا کام کرنے کیلئے عطا کیا ہے۔ نتیجتاً دو خواتین کی مویشیوں کو پانی پلانے میں مدد دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کیلئے ایک موقع تھا تاکہ آپ دوسروں کیلئے نیکی کریں اور موسیٰ علیہ السلام نے تسلیم کیا کہ مصری شخص کی ہلاکت کے کفارے کے طور پر انہیں کسی کی مدد یا ایسی ہی کوئی نیکی کرنی چاہئے تھی اور بطور مفرور ایسے ہی مزید نیک افعال کی ضرورت ہے جب تک کہ وہ تھک نہ جائیں ۔
مذکورہ آیت کا دوسرااہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کردار کو بیان کرتی ہے کہ وہ کتنے نیکو کار اور برگزیدہ نبی تھے اور انہوں نے 2 خواتین کے ساتھ کتنا نیک سلوک کیا۔ آپ علیہ السلام تھکے ہوئے تھے اور دونوں خواتین کے سامنے آرام فرما سکتے تھے تاہم آپ نے مدد کرنے کے بعد خواتین کے ساتھ رہنے کی بجائے آرام کیلئے دوسری جگہ تلاش کی۔ یہاں ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی کی مدد کرنے کے بعد آپ ان سے منسلک نہیں ہوجاتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انتظار بھی نہ کیا کہ خواتین آپ کا شکریہ ادا کرتیں یا پھر طرفین میں نئی گفتگو چھڑ جاتی، بلکہ آپ علیہ السلام نے سادگی سے ان کی مدد کی، مڑے اور چل دئیے۔
دعا کا ایک کلیدی نکتہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جن مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، ان کیلئے آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ عموماً جب لوگ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اللہ پر الزام عائد کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن اس کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انہیں مزید نیکی کی توفیق عطا فرمائے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک صحرا میں تھے، یہاں آپ کو کھانا، پانی اور پناہ گاہ تک میسر نہیں تھی تاہم آپ نے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا جو زندہ رہنے کے تمام تر اسباب پیدا کرنے والا ہے۔
انہی 2 خواتین کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گھر پہنچنے میں بھی مدد کی جس کے بعد خواتین کے والد اپنی بیٹیوں کو وقت سے قبل دیکھ کر حیران ہوئے۔ خواتین نے اپنے والد کو بتایا کہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدد دی اور یہ سن کر خواتین کے والد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گھر کے اندر بلا لیا۔ خواتین میں سے ایک باہر نکلی اور ان تک پہنچ کر انہیں اپنے گھر آنے کی یہ کہتے ہوئے دعوت دی کہ میرے والد آپ کی دی ہوئی مدد کیلئے کچھ ہدیہ دینے کے خواہشمند ہیں۔
خاتون کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہنا کہ میرے والد آپ کے رضاکارانہ اقدام پر کچھ دینا چاہتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا اثر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فوری طور پر خواتین کے والد سے ملاقات کی کیونکہ آپ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا موقع سمجھ رہے تھے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ جنہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے، مدد لینے سے ہچکچاتے ہیں یا پھر کسی اور شخص سے جب مدد ملتی ہے تو اسے مسترد کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے انتظار میں ہیں۔ تاہم، ہمیں یہ شناخت کرنے کی توفیق نہیں ملتی کہ کسی دوسرے شخص سے ملنے والی مدد بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی بھیجی ہوئی مدد ہوسکتی ہے۔
کسی بھی معزز شخص یا خاتون کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے دوسروں کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ شرمناک ہوتا ہے کہ آپ کسی سے مدد مانگیں اور یہ مخلصانہ جذبہ ہوتا ہے۔ لیکن جب لوگ ہمیں مدد کی یپشکش کرتے ہیں جبکہ ہمیں مدد کی ضرورت ہو ، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی بھی ہوسکتی ہے۔
بزرگ اور ضعیف شخص (خواتین کے والد) کے ساتھ مختصر گفتگو کے دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہدئیے کے ساتھ ساتھ ایک اور اچھی پیشکش ملتی ہے کہ آپ دونوں خواتین میں سے کسی ایک سے شادی کرلیں۔ تصور کیجئے کہ ایک شخص جس کا کوئی گھر بار نہیں، صرف رضاکارانہ مدد کے عوض نہ صرف اسے معاوضہ ملتا ہے بلکہ شادی کیلئے پیشکش بھی ہوتی ہے، یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔
آٹھ سال اور بعض روایات کے مطابق 10 سال تک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سسر کیلئے کام کیا۔ اِس سے ہماری ثقافت اور معاشرتی روایت پر ایک ضرب پڑتی ہے جس کے مطابق سسرالیوں کیلئے کام کرنا باعثِ شرم قرار دیاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خود یہ سبق دے رہا ہے کہ انسان خود ہی عزت اور بے عزتی کے خودساختہ معیارات قائم کرتا ہے جس سے زندگی دشوار ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ایسی کوئی بات مسلط نہیں فرمائی۔
اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے کبھی کوئی چرواہا یا کسان بننے کی تمنا نہیں کی تھی لیکن جو کچھ بھی آپ کو ملتا گیا، آپ اسے اپنانے کیلئے تیار رہتے تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مشکل وقت کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور ہمیں بھی وہ لے لینا چاہئے جو اللہ تعالیٰ ہمیں کسی وسیلے سے عطا فرمائے۔ اس لیے ہر موقع، ہر دوست، ہر رابطہ اور ہر تعلق جو ہم زندگی میں قائم کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پیشکش قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے سے حاصل کردہ سبق ہے۔