سراج الدولہ کا خواب

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چند ہفتے قبل تک ہمارے ہاں ایک ایسی حکومت تھی جو اپنے زور پر فقط پانچ ماہ ہی گزار سکی۔ اوریہ پانچ ماہ بھی اسے اس لئے نصیب ہوئے کہ ایک دو ماہ تو پی ڈی ایم بھی شکوک شبہات کا شکار رہی کہ یہ حکومت واقعی بیساکھیوں سے محروم ہوچکی یا ان کے ساتھ کوئی “پرینک” ہو رہا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس کچے گھروندے کو لات مارنے جائیں تو کہیں سے اچانک کوئی سامنے آکر کہدے  کہ وہ سامنے کالے شیشوں والے ڈالے میں کیمرہ لگا ہے، ہاتھ ہلادیں۔  کسی ممکنہ پرینک کا اندیشہ نہ ہوتا تو انصافی گھروندہ صرف 3 ماہ کی مار تھا۔ اس گھروندے کا اکتوبر 2021ء سے قبل ماٹو تھا “ہم سیم پیج پر ہیں” یہ حکومت ہی کیا بلکہ وہ قوتیں بھی سیم پیج باور کرانے میں ان سے پیچھے نہ تھیں جو اب اپنے لاڈلے کا “پیار” بھگت رہی ہیں۔

رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں:

جمہوری لنڈا

غلطی ٹھیک کرنے کی کوشش

گویا یہ ایک مسلمہ سیاسی حقیقت ہے کہ جو حکومت بیساکھیوں کے بغیر پانچ ماہ کی مہمان ثابت ہوئی یہ 2018ء میں فراڈ انتخابی نتائج کے باوجود اقتدار میں نہیں آسکتی تھی۔ اس کا اقتدار ممکن ہی یوں ہوا تھا کہ جو انتخابات سے قبل سرگرم تھے انہوں نے رہی سہی کسر انتخابات کے بعد پوری کرلی۔ جہانگیر ترین کا تو صرف جہاز سواریاں لینے جاتا۔ اس جہاز کے پہنچنے سے قبل “فون” جا چکا ہوتا تھا۔

اب اسی گھروندے کا وارث شہر شہر جلسے کرکے باور یہ کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا گھروندہ تو گویا اسلامی تاریخ کی سب سے عظیم حکومت تھی۔ وقت کی سپر پاور کو اس گھروندے کے خلاف سازش پر مجبور ہونا پڑا۔ اور گویا اس کا زوال سلطنت عثمانیہ کے زوال سے کم نہیں۔

پچھلے ایک ماہ میں جناب عمران احمد خان نیازی کا بیانیہ گرگٹ سے بھی زیادہ رنگ بدلتا ہوا کم از کم تادم تحریر کی حد تک اس مؤقف پر کھڑا ہے کہ صرف امریکہ ہی سازش میں شریک نہ تھا بلکہ ان کے گھروندے کو گرانے میں کسی مقامی میر جعفر کی غداری بھی شامل تھی۔ حیرت ہے کہ تجزیہ کار ان کے دعوے میں میر جعفر پر ہی فوکس کئے بیٹھے ہیں۔ جبکہ ان کے دعوے کا اصل قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ خود کو سراج الدولہ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

ماضی کی نوابی ریاستیں ہوں یا سلطانی سلطنتیں، ان کا بنیادی تعارف ہی یہ ہے کہ یہ عوامی حکومتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ باپ کی جاگیر ہوا کرتی تھیں۔ ماضی بعید میں کیا جانا، آپ موجودہ عرب ریاستوں کو ہی لے لیجئے جہاں موجودہ بادشاہ سلامت فوت ہوں گے تو اگلے بادشاہ سلامت آئیں گے اور اسی خاندان سے آئیں گے کا اصول کار فرما ہے۔

ان سلطنتوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ سپہ سالار ہو یا وزیر و مشیر، وفاداری سب کی بادشاہ سلامت سے ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میر جعفر کا تذکرہ کرتے ہوئے مؤرخ پہلی ہی سطر میں خود کو یہ لکھنے پر مجبور پاتا ہے کہ “سراج الدولہ سے غداری کی” جبکہ جس جمہوری نظام میں ہم رہتے ہیں، اس کے تو بنیادی اصولوں میں یہ شامل ہے کہ شہری ہی نہیں بلکہ ہر ریاستی اہلکار بھی مملکت اور اس کے آئین کا وفادار ہوگا، کسی فردِ واحد کا نہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ان کے دور حکومت کے دوران جو سنگین الزامات لگے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس وقت کے ایف بی آئی چیف جیمز کومی سے کہا تھا “کیا تم میرے وفادار رہوگے؟” یہ الزام کسی اور نے نہیں بلکہ خود جیمز کومی نے لگایا اور جیمز کومی کو اس بات پر سراہا جاتا ہے کہ انہوں نے جواب میں وفاداری کی بجائے یہ یقین دہانی کرائی کہ “میں آپ کے ساتھ مخلص رہوں گا”۔

اب یہ “مخلص” لفظ اتنی ہمہ گیری رکھتا ہے کہ اعلیٰ سطح کا سرکاری اہلکار حکمران کے قانونی احکامات کی کامل تعمیل بھی اس کی بنیاد پر کرسکتا ہے۔ اور کسی غیر قانونی حکم کو یہ کہہ کر ماننے سے انکار بھی کرسکتا “سر ! میں یہ حکم نہیں مان سکتا کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ اور میرا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ بھی یہ حکم واپس لے لیجئے ورنہ اس کے نتیجے میں آپ کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔”

دوسری جانب فرد سے وفاداری کا حلف اٹھانے والا تو حکم عدولی کی جرات ہی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ تو مملکت اور اس کے آئین کا نہیں بلکہ فرد واحد کا وفادار ہے۔ اور اسے اس فرد واحد کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھنا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کوئی راجواڑہ ہے، نہ عمران خان کسی راجواڑے کے نواب تھے، اور نہ ہی کسی سرکاری اہلکار نے ان سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے تو پھر عمران خان کو پوری تاریخ میں مثال سلطانی دور سے کیوں لینی پڑی؟ کیا ان کی مثال کسی جمہوری ملک سے نہیں ہونی چاہئے تھی؟ کیا جمہوری ریاستوں میں غداری وجود ہی نہیں رکھتی کہ مجبوراً انہیں سلطانی دور کی جانب جانا پڑا ؟

ممکن ہے آپ سوچیں کہ یہاں ان سے غلطی ہوگئی۔ وہ موزوں مثال کی بجائے سہواً ایک غلط مثال کی جانب چلے گئے۔ اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو بلاشبہ غلط سوچ رہے ہیں۔ عمران خان نے یہ مثال سوچ سمجھ کر چنی ہے کیونکہ جس دس سالہ منصوبے کا ذکر ہم پچھلے چار سال سے بار بار سنتے آئے ہیں وہ کیا تھا؟ اگر اس پر عمل ہوتا تو اس میں تو انتخابات کے نام پر فقط ڈرامے بازیاں ہونی تھیں۔

وفاداری کسی نے بھی مملکت اور اس کے آئین سے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے نبھانی تھی۔ اس منصوبے کا تو صرف دس سالہ تصور سامنے لایا گیا تھا۔ ان دس سالوں کی ممکنہ تکمیل پر پھر اگلے دس سالوں کا بندوبست تو وقت آنے پر ہونا تھا۔ گویا ہائبرڈ نظام کے تحت جناب عمران خان نے خود کو سراج الدولہ کے طور پر ہی تاحیات مسلط کئے رکھنے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔ اور یہ منصوبہ “تو میری (پیٹھ) کھجا، میں تیری کھجاؤں” کے اصول پر آگے بھڑھنے کا خواب تھا۔ اور یوں وہ ذہنی طور پر اس وقت بھی خود کو سراج الدولہ ہی محسوس کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں میر جعفر یاد آرہا ہے۔ جب ان کا جمہوریت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تو پھر یہ جمہوری ریاستوں والے غداروں کی مثال کیوں دیں؟

جمہوری ریاست میں جنرل مشرف جیسوں پر غداری کا مقدمہ اس لئے نہیں چلتا کہ انہوں نے نواز شریف سے وفاداری نہیں نبھائی۔ بلکہ اس بنیاد پر چلتا ہے کہ ریاست کے آئین سےغداری کی۔ بلاشبہ جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی آئین اجازت نہیں دیتا۔

سیاست میں فوج کی مداخلت آئین سے انحراف تھا۔ اور اسی کی بنیاد پر پی ڈی ایم نے اپنی تحریک میں سارا زور اس ایک نکتے پر مرکوز رکھا تھا کہ فوج سیاسی کوچے سے نکلے۔ جس نواز شریف نے انہی جنرل باجوہ کے دور میں عدالت اور جیل کا سامنا کیا اس نواز شریف نے پی ڈی ایم کے جلسوں کے دوران جنرل باجوہ کا کئی بار نام تو لیا مگر انہیں “غدار” کبھی نہیں کہا۔ کیونکہ آئین سے انحراف کا مطلب غداری نہیں ہوتا۔

آئین کو لپیٹنا اور اس کی جگہ پی سی او متعارف کرانا غداری ہوتا ہے۔ عجیب تماشا نہیں کہ جنہوں نے جنرل باجوہ کے آئین سے انحراف کو بھگتا، انہوں نے تو صعوبتوں کے لمحوں میں بھی انہیں غدار نہیں کہا جبکہ جس کے دور میں جنرل باجوہ فوج کو واپس آئینی حدود میں لے گئے وہ انہیں غدار قرار دے رہے ہیں؟

کیا اپنی غلطی کا سدھار کرنا غداری ہوتی ہے؟ کیا آئین سے انحراف کی راہ ترک کرکے آئین کی حدود میں لوٹنا غداری قرار دیا جاسکتا ہے؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری درست کہتے ہیں کہ “جنرل باجوہ کو سیلیوٹ ہونا چاہئے، ان سے لڑنا نہیں چاہئے”۔ ان سے لڑنے کی غلطی وہی کرسکتا ہے جس کا سراج الدولہ بننے کا خواب چکناچور ہوا ہے۔

Related Posts