کیا آپ جانتے ہیں؟ پہلی قسط

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا ہم واقعتاً جانتے ہیں کہ ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے؟ ریاست ، معاشرے ، قیادت اور علماء نے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے اور ہمیں کہاں لے جایا جارہا ہے؟ یہ صرف تجسس یا علمی دلچسپی سے باہر کے سوالات نہیں بلکہ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمارے مستقبل اور آنے والی نسلوں کی عمومی سمت کا تعین کریں گے۔

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ ہمارے آس پاس کی دنیا ہم سے دور جارہی ہے ،ایک ملک اور ایک قوم کی حیثیت سے جناح کی بے وقت موت کے فوراً بعد ہمیں نظریاتی مسائل میں جھونک دیا یاگیا، آزادی کے فوراً بعد ہی ہم کشمیری جنگ میں شامل ہوگئے اور غیر یقینی جنگ نے بدقسمتی سے فوجی عدم تحفظ کی ایک نفسیاتی کیفیت پیدا کردی گئی جس کی وجہ سے بیرون ملک سے مدد طلب کی گئی اور اس طرح معاشی ترقی سے ایک نو تشکیل شدہ ملک کی اہم توانائی کو فوجی تیاری کی طرف موڑ دیا گیا ۔

امریکا کے تیار کردہ دفاعی معاہدے ایک پرکشش اختیار بن گئے جس میں پاکستان شامل ہوگیا اورجلد ہی ہمیں امریکی فوجی ہارڈویئر کافی حد تک مل گئے اور بھارت کو موثر جواب دینے کیلئے کمک تیار کی گئی اور پھر بھارتی جارحیت کا خاتمہ ہوا جس نے معیار زندگی ، صنعت ، زراعت ، تعلیم ، صحت ، تجارت اور برآمدات میں ہمہ جہت بہتری کے لئے جگہ فراہم کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قوم میں زبردست صلاحیت موجود ہے اور ہمارے وسائل نسبتاً بڑھتی ہوئے عدم تحفظ سے آزادہوگئے ہیں۔

پاکستان کواپنی داخلی اور بین الاقوامی صلاحیت کا احساس ہونے لگا تھا لیکن یہ اسکرپٹ نہیں تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی طرح کا سیاسی نظام واقعتاًتیار نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اسے ارتقاء کی اجازت تھی۔

اس کے باوجود ملک بہتر نظر آرہا تھا اور اوپر کی طرف جاررہا تھا ، معاشی اشارے صحتمند تھے ، اچھے سمجھے جاتے تھے اور مجموعی طور پر اس کی مثبت امیج تھی۔

افراتفری کے ابتدائی عشرے کے بعد لاڑکانہ سے ایک نوجوان جوشیلا سیاستدان سامنے آیا جو موثر تقریر کا فن جانتا تھا اور سیاسی موقع پرستی کے شدید احساس کے ساتھ ایک بہت ہی تیز ذہن رکھتا تھا۔ وہ جلد ہی صدر ایوب کے اندرونی دائرہ میں داخل ہوا جو اس وقت ملک کاحکمران تھا اور وہ نوجوان وزیر خارجہ کی سطح پر کھڑا ہو گیا بس یہی وہ جگہ تھی جس کی اسے ضرورت تھی۔

صدر ایوب اس وقت خود اعتمادی کے دور سے گذر رہے تھے جب ملک بھر میں فاطمہ جناح کی قیادت میں مظاہرے ہورہے تھے جو ایک زبردست سیاسی مخالف اور بانی قوم کی بہن تھی۔ اس موقع کو دیکھتے ہوئے بھٹو نے صدر ایوب کی انا اور کمزوری پر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کیا اورانکی چالاکی 1965 میں کشمیر پر دوبارہ ہندوستان کے ساتھ ایک تیز جنگ کا سبب بنی۔

امریکی فوجی امداد بند کردی گئی تھی جس کی 65 ء کی جنگ کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

یہ ہمارے خطے میں امریکی چست ذہنیت یا اس کی تذویراتی حدود کا پہلا اشارہ تھا اور مستقبل میں بھی اس بیڑے کے ساتھی سے کیا توقع رکھی جائے یہ سوچنا چاہیے تھا لیکن ہم ہمیشہ تجزیہ کرنے میں پیچھے رہتے ہیں اور وقت سے سیکھنے میں دیر کرتے ہیں اور اس وقت تک اس خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کے بیانات میں ہماری ریاست اور ذاتی (سول ملٹری قیادت اور سینئر بیوروکریسی) مفادات کو کافی حد تک گہرا باندھا گیاتھا، ملک کو آنے والے وقت میں امریکی معاونت پر اس غیر منطقی انحصار کی بہت قیمت ادا کرنی تھی۔

اسی دوران ذوالفقار بھٹو نے امریکا و مغرب کے ساتھ اپنی بات چیت کی راہیں کھلی رکھیں اور اپنے آپ کو ایک زیادہ قابل اعتماد اور سیاسی طور پر پرانے رہنما کے طور پر پیش کرتے رہے۔ جنگ کے فوراً بعد ہی ذوالفقار بھٹو نے محسوس کیا کہ اب جہاز سے چھلانگ لگانے کا وقت آگیا ہے ۔

اس کے بعد انہوں نے ناراض محب وطن کی حیثیت سے کام کیا اور ایوب خان سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی مشہور لیکن بدقسمت ستارہ پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی۔ جلد ہی ایوب کو اقتدار سے جانا پڑا اور جنرل یحییٰ خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اورذوالفقار بھٹو جواقتدار پر قبضے کا خواب دیکھ رہے تھے ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ذوالفقار بھٹو بلاامتیاز سیاسی طاقت چاہتے تھے لیکن یہاں کئی چیلنجز درپیش تھے اورپھرعام انتخابات ہوئے جہاں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی اور مشرقی پاکستان سے مجیب کی عوامی لیگ نے ملک میں مجموعی طور پر اکثریت حاصل کی جس نے ایک دوہرا مخمصہ پیدا کیا۔

انہوں نے مغربی پاکستانی سے منتخب ارکان کوڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا اور یحییٰ خان کو مجیب الرحمن کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا جس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی اور آخر کار ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی جہاں بہادری سے لڑنے کے باوجود بھی پاک فوج کو 71ء میں ایک زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یحییٰ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا بھٹو نے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال لیا ۔ اس وقت سے ہی بھٹو نے مسلح افواج کے منظم خاتمے ، صنعتوں اور بینکوں کو قومیانے ، بیوروکریسی کے آزمودہ اور آزمائشی ڈھانچے کو ختم کرنے اور دانستہ طور پر معاشرتی انتشار کا اندھا دھند پھیلاؤ شروع کیا۔ ایک ساتھ بہت زیادہ خرچ محاذ کھولنے کی قیمت بھٹوکواپنی جان دیکراداکرنی پڑی، اگر وہ تھوڑا سا محتاط ہوتے تو زیادہ ان کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ سکتے تھے ۔

بھٹو کی جانب سے پیداواری صنعتوں ، بینکوں اور کارپوریشنوں کواندھا دھند قومیانے سے معیشت کو بڑا دھچکا لگا اوراس اقدام نے بڑے منصوبوں میں بامقصد کاروباری اور طویل مدتی سرمایہ کاری کے ماحول کی حوصلہ شکنی کی اور ہمارے صنعتی پیداوار اور دیگر مینوفیکچرنگ اقدامات کی کوالٹی کو بری طرح نقصان پہنچا، بڑے کاروباری افراد نے اپنے اہم کاروبارملک سے باہر منتقل کردیئے ۔

پہلی بار اور دیرپا اثر و رسوخ کے ساتھ معاشرتی اصولوں کو چھوڑا گیا،اساتذہ کے مقابلے پرطلبہ ، کارکنوں کے مقابلے میں آجر ، مزدور بمقابلہ مل مالک ، والدین کے مقابلے میں بچے ، عملہ بمقابلہ عملہ ، ایماندار کے مقابلہ میں بے ایمانی اوراس کے بعد آنے والی افراتفری نے ہمارے معاشرے اورمعاشرتی ڈھانچے کی آہستہ آہستہ لیکن ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔آج ہم جس معاشرتی انارکی کو دیکھ رہے ہیں وہ سب کے لئے تباہ کن ہے اور یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کے سبب ہے جنہوں نے خود کو اقتدار میں قائم رکھنے کے لئے عدم اعتماد اور انتشار کو فروغ دیا۔

وقت کے آزمائشی نظام کو توڑنے کے بعد بھٹو معاشی انتظام ، معاشرتی ڈھانچے اور حکمرانی کے طریقہ کار کا کوئی متبادل تصور فراہم کرنے میں ناکام رہے اور جب پیپلزپارٹی نے اگلے الیکشن میں دھاندلی کی تو سازش نے ہمارے نازک تزکیہ مذہبی / فرقہ وارانہ توازن کو ایک مہلک دھچکا پہنچایا لیکن بدقسمتی سے یہ وہ مقام ہے جہاں ملاں ان کے ساتھ تھے اورمذہبی لابی کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے دھوکہ دہی کے ساتھ پہلے قدم کے طور پر شراب پر پابندی عائد کردی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ۔

بعدازاں جنرل ضیاء الحق نے ملک میں پنپتے مسائل کو ختم کرنے کیلئے اقتدار سنبھالااور ملک میں جاری فاشزم کے خاتمے کیلئے کاوشیں شروع کیںتاہم اس بار پھر قوم کو اس بار عقیدے کے نام پر دھوکہ دیا گیا ۔
(جاری ہے)

Related Posts