کیا آپ جانتے ہیں؟ آخری قسط

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں سارا کھیل یکسر تبدیل ہوگیا جس کے تحت 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور دیگر مقامات پر حملوں کی نشاندہی کا تعلق افغانستان میں طالبان اور القاعدہ تنظیم سے جوڑا گیا۔ امریکا نے افغانستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کی اور حملوں کیلئے پاکستان کی سرزمین کی ضرورت پیش آئی، تاہم اس بار پاکستان کا کردار مکمل طور پرماضی کے برعکس رکھا گیا یعنی افغان طالبان کی مخالفت۔ امریکا نے اپنے آپ کو اور ہمیں ایک ایسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جس کے تحت اس کے سابقہ اتحادی یعنی افغان مجاہدین دہشت گرد قرار پائے اور اب امریکا ان پر حملہ آور ہونے کا خواہش مند تھا اور اگر پاکستان اس سے انکار کرتا تو دوسرے آپشن کے طور پر بھارت موجود تھا۔ یہ عسکری و سیاسی منظر نامے کا ایک ایسا رخ تھا جسے سمجھنے کیلئے ریاستی تدبر اور بصیرت کی ضرورت تھی جو جنرل مشرف اور ان کے قریبی ساتھیوں میں مفقود تھی۔ انہوں نے ایک ایسا غیر متوقع سمجھوتہ کر لیا جسے صرف اسی مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے کہ آپ شکاری کتے لے کر شکار پر نکلیں اور خود ہرن کے ساتھ بھاگ رہے ہوں۔ یہ سستا اور نادانی پر مبنی سمجھوتہ بغیر نتائج اور اپنی اسٹرٹیجک حیثیت کی پروا کیے عمل میں لایا گیا۔ ملک کو طالبان کے خلاف امریکی فوج کی چھاؤنی بنا دیا گیا جس کا مقصد وہ فوائد حاصل کرنا تھا جو بظاہر پاکستان کے مفادات کے مطابق تھے۔ یہ امید بھی کر لی گئی کہ اس قسم کے کام سے ہم غیر محفوظ نہیں ہوں گے یا کم از کم امریکا ہمیں پریشان نہیں کرے گا۔ جنرل مشرف کو معروف پشتون مقولہ معلوم نہیں تھا کہ افغان اپنا راز اس وقت تک راز رکھتے ہیں جب تک انہیں رقم فراہم کی جاتی رہے۔

امریکا نے اس شمالی اتحاد کی مقامی مدد لی اور افغانستان پر حملہ آور ہوا جو افغان مجاہدین سے الگ ہو گئے تھے اور جلد ہی افغان طالبان کے قدم آگے بڑھتی ہوئی  امریکی فوج کے دباؤ میں آ کر پاکستان میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ کابل پر قبضہ ہوگیا۔ انہوں نے اپنی پرانی مقامی سپورٹ کے انفراسٹرکچر کی تجدید کی اور اس بار افغانستان میں امریکی فوج اور پاکستان میں ہماری آرمی کے خلاف دو طرفہ گوریلا جنگ چھیڑ دی۔ جنرل مشرف نے لال مسجد سے اٹھنے والی بغاوت کا سر کچلنے کیلئے جو طاقت کا استعمال کیا اس سے پاکستان میں اندرونی عدم استحکام بڑھا۔ اس طرح سابق صدر جنرل مشرف نے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی پھیلانے کیلئے ٹی ٹی پی کو چھاؤنی فراہم کی جس کی وجہ سے اگلے 10 سال تک پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ ملا جہاں ہزاروں عام شہری، سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے نشانے پر آگئے۔ عوامی جان و مال اور املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ خاص طور پر آرمی پبلک اسکول کا قتلِ عام جو ٹی ٹی پی کی جنگلی درندگی و وحشت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ حیرت انگیز طور پر پاک فوج کو جنوبی وزیرستان سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خفیہ ٹھکانے ختم کرنے کیلئے آگے بڑھایا گیا۔ پاک فوج نے دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے کامیاب متحرک آپریشنز میں سے ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔ دہشت گردوں نے پاک فوج کے مقابلے کیلئے پورا زور لگا دیا اور پاک فوج بھی جانیں قربان کرکے آگے بڑھتی رہی۔ پاکستان ائیر فورس نے بہادری، بے لوثی اور جانثاری کی شاندار داستانیں رقم کیں۔ ہم نے اپنی قوم، بہترین افسران اور جوانوں کو دہشت گردی کی ناقابلِ تلافی جنگ میں جھونک دیا لیکن اپنے ملک کو اس وحشی کھیل سے مکمل طور پر نجات دلا کر رہے۔

متوقع طور پر زندہ بچ جانے والے دہشت گرد افغانستان بھاگ نکلے جبکہ امریکا اور افغان فورسز نے فاٹا میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاک افغان بارڈر سیل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ افغانستان میں مفرور دہشت گردوں کو ننگرہار، پاکتیکا، کنار اور نورستان کے علاقوں میں افغانی تنظیم این ڈی ایس اور راء مل کر کھانا کھلاتے ہیں، اسلحہ مہیا کرتے ہیں اور پناہ دیتے ہیں۔یہ لوگ ان کے دہشت گردی کے اثاثہ جات ہیں جو پاکستان میں ایجنٹ بن کر تخریب کاری کے کام سرانجام دیتے ہیں۔ان میں سے جماعت الاحرار ننگر ہار سے تعلق رکھنے والی مفرور تنظیموں میں سے سب سے معروف ہے۔ داعش کے جنگجو جب عراق سے پسپا ہوئے تو انہیں امریکا نے غیر نشانزد ہیلی کاپٹرز کے ذریعے شمال مغربی حصے میں بی آر آئی کی چھتر چھاؤں میں پہنچا دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے اسٹرٹیجک مفادات کیا ہیں اور وہ کون سی طاقت ہے جو داعش کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس کا مقصد ایسا اسٹرٹیجک ڈیزائن تیار کرنا تھا جس کے تحت ایسی فورس تعینات کی جائے جو افغانستان میں طالبان کے اثر رسوخ کو چیک کرسکے۔ اشرف غنی کو ضرور علم ہوگا کہ پاکستان کی مغربی سرحد کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا کر کون سے مفادات حاصل کیے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں داعش کی موجودگی امریکی فوج کو دو صورتوں میں ملک میں موجودگی کیلئے بنیاد فراہم کرتی ہے جس سے وہ چین کا اثر رسوخ خطے سے کم کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس زمینی اڈے سے روس کو بھی کافی خطرہ ہے اور امریکا کی تھانیداری بھی خطے میں مستحکم نظر آتی ہے۔افغانستان میں داعش کو بھیجے جانے سے بھارت کو ایک خاص موقع میسر آیا کہ افغانستان سے پاکستان کا صفایا کردے۔ این ایس اے کا ڈول بغداد فرار ہوا اور داعش کی قیادت سے جا کر ملا تاکہ اپنے دہشت گردوں کو ٹی ٹی پی سے ملا کر پاکستان کے خلاف نئی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کی جاسکیں۔ اس نے قندھار میں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر مشترکہ دہشت گردی شروع کرنے کی پلاننگ کی۔ بعد ازاں وہ بلوچ قومیت پسندوں کو بھی اس دہشت گردی میں شامل کرنے لگا۔ اس طرح جو کچھ ہم آج بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں، یہ بھارتی دہشت گردی کی بد ترین مثال ہے جس پر امریکی حکمتِ عملی کام کر رہی ہے تاکہ سی پیک کی ترقی کو روک کر پاکستان کو دیوار سے لگا دیا جائے۔ بھارت نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مفرور گروہوں اور پی ٹی ایم کی حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں پاک فوج کے خلاف بدنامِ زمانہ مہم چلا سکیں۔

سن 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کو بے دخل کرکے قومی اقتدار کی میوزیکل چیئر پر زرداری نے قبضہ کر لیا جس نے بے نظیر کے انتہائی مشکوک قتل اور یکطرفہ تفتیش کے بعد پیپلز پارٹی کا اقتدار سنبھالا۔ آصف زرداری نے قومی سطح پر خوب لوٹ مار کی، اہم حکومتی عہدوں پر اپنے من پسند افراد تعینات کردئیے۔ امریکہ کے خفیہ حواری مردو خواتین کو بلا رکاوٹ پلانٹ کیا، بتایا جاتا ہے کہ واشنگٹن میں اس کے سفیر حسین حقانی نے ایک دن میں ایسے لوگوں کو ہزاروں ویزے جاری کیے جن کی پاکستانی انٹیلی جنس یا وزارتِ داخلہ نے منظوری نہیں دی تھی۔ صرف اسلام آباد میں سیکڑوں مکانات بلیک واٹر کے بدنامِ زمانہ ایجنٹوں کو کرائے پر دے دئیے گئے۔ امریکا کو سفارت خانے کا غالباً دنیا کا سب سے بڑا کمپاؤنڈ اسلام آباد میں بنانے کی اجازت دی گئی۔بعد ازاں نواز شریف مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے، جیسا کہ ڈاکوؤں کے مابین معاہدہ ہوا تھا۔

نواز شریف نے اپنی تیسری اننگ کھیلنے کیلئے ایک نادان شخص کو کھڑا کیا اور پاک فوج مخالف، بھارت پسند میڈیا کے مردوزن اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے علاوہ انتہائی مشکوک مالی بدعنوانی کی عجیب و غریب داستانیں رقم کرنے والے افراد کا حلقہ قائم کر لیا۔یہ مردو زن کی ایک حیرت زدہ نسل تھی جس نے نواز شریف کو حکمران کی جگہ رکھا جو شروع ہی سے جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا دیا جو قومی خزانے سے کچھ بھی حاصل کرسکتے تھے۔ ملک کو عجیب و غریب صورتحال سے دوچار کیا گیا۔ شریف خاندان کی لوٹ مار کی مثال لارڈ کلائیو سے دی جاسکتی ہے جس نے نواب سراج الدولہ کے بعد مرشد آباد کے خزانے پر ہاتھ صاف کیے۔ پانامہ لیکس نے ساری بدعنوانیوں کا انکشاف کیا جس سے شریف فیملی بے نقاب ہو گئی اور سپریم کورٹ نے انہیں ساری زندگی کیلئے سیاست سے نااہل قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ کی نشست چھین لی۔ بعد ازاں احتساب عدالت نے بھی ان پر فردِ جرم عائد کی۔ پھر بیماری کا بہانہ بنایا، ڈاکٹروں کو رشوت دی اور عدالتوں کو خرید کر سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آسانی سے برطانیہ فرار ہو گئے جہاں سے وطن واپسی کا نواز شریف کا کوئی ارادہ نہیں۔ اسی دوران ہائی کورٹ نے نواز شریف کو مفرور قرار دے دیا اور ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے۔ یہ سیاسی اعتبار سے غیر متنازعہ اور متنوع پاکستان کی مختلف اخلاقی حساسیت ہے جہاں تین بار کا وزیرِ اعظم ایک مجرم اور قانون سے مفرور ہوجاتا ہے اور یہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف نے پورے نظام اور انتخابی طریقہ کار کی دھجیاں اڑا دیں اور قانون کو بے وقوف بنایا۔ بدمعاشوں کی عالمی گیلری میں نواز شریف کو اہم مقام ملنا چاہئے۔

ووٹنگ کے دوران نواز شریف شکست کھا گئے اورعمران خان اور ان کے تحریکِ انصاف کے ساتھی کامیاب رہے۔ تحریکِ انصاف حکومت میں بہت سے دوغلے کردار بھی شامل ہیں جن کی صرف یہ کہہ کر وضاحت نہیں کی جاسکتی کہ وہ محض انتخابی نعرے ہیں اور اگر نہیں تو یہ نئے آنے والے یا تو بہت مغرور ہیں یا بہت پریشان کہ یہ بات کیسے تسلیم کی جائے کہ یا تو وہ غلط تھے یا پھر حد سے زیادہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے خواہش مند؟ سب سے اہم نعرہ ان کا یہ عزم ہے کہ وہ ریاست کو ترقی دیں گے اور طاقتور اور بدعنوان عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے جبکہ گلی محلوں میں ان سے متعلق عوامی رائے اس کی مخالف نظر آتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ تحریکِ انصاف کو حکومت میں آنے کے بعد بد ترین نقصان ہوا کہ ان کے چہرے اور عوام میں ان کی ساکھ تباہ ہو کر رہ گئی۔ یہ حکومت اپنی تیز تر حکمرانی کی کارکردگی، وفاقی وزراء کے ذریعے گفتگو، پالیسی فیصلوں پر مسلسل یو ٹرن، مہنگائی پر قابو نہ پا سکنے اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پریشان کن ہے۔ چینی، پٹرولیم اور گندم کی قلت نے حکومت کو بد ترین بدنامی سے نوازا جس میں خود عمران خان کے قریبی دوست ملوث نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین الٹ پھیر یہ ہے کہ ای سی سی نے فیصلہ کیا کہ چینی اور کاٹن بھارت سے درآمد کی جائے گی لیکن اگلے ہی روز وزیرِ اعظم عمران خان نے اس سے انکار کردیا۔ یہ ایک انتہائی احمقانہ اقدام تھا جس کے نتیجے میں وفاقی کابینہ اور وزراء کا مقامی اور عالمی سطح پر مذاق اڑایا گیا۔ ایسے ہی تکلیف دہ فیصلے ہر گزرتے روز کے ساتھ کیے جارہے ہیں جو وزیرِ اعظم ہاؤس کے سامنے پارٹی کے جھنڈے کے کون سے رنگ کا عکس ظاہر کرتے ہیں، کچھ معلوم نہیں۔ عمران خان کو سیاست کا معاندانہ طریقہ چھوڑ کر ایک پر اعتماد سیاسی رہنما کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں الگ طریقے سے گفتگو کرنا ہوگی اور اپنے اخلاقی کردار کو واضح کرنا ہوگا۔ ان کی گفتگو اور اعمال کسی ریاست کے سربراہ جیسے نظر آنے چاہئیں تاکہ لوگ ریاست کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے ویژن سے اتفاق کرسکیں۔ ان کی تحریر و تقریراور حرکات و سکنات  میں بھی ملک کا وقار نظر آنا چاہئے۔ انہیں عوام سے تعلقات بڑھانا سیکھنا ہوگا اور یہ بھی کہ حکمرانی اور اشتعال انگیزی مل جائیں تو نااہلی کی علامت بن جاتی ہیں۔

ملک کے عوام کو بدعنوانی اور کرپشن کے باعث مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔ ہماری آنکھوں پر بار بار پٹیاں باندھی جاتی ہیں اور محض حکم سنا کر قومی سلامتی، جہاد، فرقہ بندی کی تخصیص یا قرض کی ادائیگی کیلئے ہر بار قتل کیا جاتا ہے۔ ہمیں لوٹ مار کرکے بھکاری کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا اور چور، لٹیرے اور ڈاکو سردار، حکمران اور وڈیرے بن بیٹھے جن کی ملک بھر میں اپنی عدالتیں ہیں۔جن کے پاس خدا کے احکامات تھے، انہوں نے ہمیں فرقہ واریت میں تقسیم کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور آج ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ہمیں سالہا سال سے جس راستے پر چلایا جارہا ہے، وہ ہمارا  راستہ نہیں تھا اور جو لوگ ہمارے حکمران بنائے گئے، وہ ہمارے منتخب کیے ہوئے نہیں تھے۔ جو کچھ ہوچکا ہے اسے اب بند ہونا چاہئے لیکن ایسا ہوگا نہیں جب تک پاکستان کے عوام خود اپنی ضروریات کیلئے اٹھ کر اپنے حقوق کی فراہمی کا پرزور مطالبہ نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ جانتے ہیں؟ دوسری قسط

Related Posts