“اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے مندوبین نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس سے ملاقات کی ہے جس میں قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے “دانستہ اشتعال انگیز اقدام” کو غیر قانونی قرار دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔”
یہ پیش رفت اس واقعے کے بعد ہوئی ہے جب ایک عراقی تارک وطن سلوان مومیکا نے جمعرات کو اسٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے باہر دو افراد پر مشتمل جلوس میں قرآن پاک کو ٹھوکریں مار کر دوبارہ اس کی بے حرمتی کی۔ اس نے گذشتہ ماہ بھی اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کے نسخے کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
مفتی تقی عثمانی نے عالم اسلام سے سویڈن کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل کر دی
جمعہ کو مسلم اکثریتی ممالک نے دنیا بھر میں سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف غم وغصّے کا اظہار کیا۔ ہزاروں افراد نے واقعے کی مذمت کرنے کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد سڑکوں پر احتجاج کیا۔
پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سعودی عرب، مصر، بنگلہ دیش، اور موریطانیہ کے مندوبین کے ہمراہ کتاب مقدس کی بار بار بے حرمتی کے واقعات کی مذمّت کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے سربراہ سے ملاقات کی۔
پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ “سفارت کار منیر اکرم نے سیکریٹری جنرل کو پیغام پہنچایا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے لائق مذمت اقدام کے خلاف حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے اور قرارداد کی ایک نقل ان کے سپرد کی۔
“انھوں نے اس مسئلے پر حال ہی میں انسانی حقوق کونسل کی طرف سے منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں ان ممالک پر زور دیا کہ قرآن پاک کو جلانے جیسی اشتعال انگیز کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیں، جو تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔”
پاکستان کے مستقل نمائندے نے کہا کہ او آئی سی نے گوٹیرس پر زوردیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف ایکشن پلان اپنایا جائے ۔
بیان کے مطابق، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو “قابل مذمت” قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کی طرف سے منظور کردہ قرارداد پر تمام رکن ممالک کو عمل درآمد کرنا چاہیے۔
اس ماہ منظور کردہ قرارداد میں ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات کے بعد “مذہبی منافرت پر مبنی افعال اور ان کی وکالت کے خلاف کارروائی کریں، انھیں روکیں، اور قانون بنائیں”۔ امریکا، یورپی یونین (EU) اور دیگر مغربی ممالک نے اس کی سختی سے مخالفت کی، جن کا استدلال تھا کہ یہ آزادیِ اظہار کے قوانین سے متصادم ہے۔
بعد ازاں او آئی سی گروپ نے “توہین آمیز” عمل پر او آئی سی کے تحفظات سے آگاہ کرنے کی غرض سے سلامتی کونسل کی صدر سفیر باربرا ووڈورڈ سے ملاقات کی۔