مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آپ نے سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا ذکر تو خوب سنا ہوگا، وہی سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں جن کا کار و بار پاکستان میں نئی گاڑیوں سے کئی گنا بڑا ہے۔ ان گاڑیوں کے مستقل شورومز بھی ہیں، ان کے اتوار اور جمعہ بازار بھی لگتے ہیں، یہ افغان ٹرانزٹ کے ذریعے بھی ہماری سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہیں، مشہور تشہیری ویب سائٹس و اخبارات کے کلاسیفائیڈ اشتہارات کی مدد سے براہ راست بھی بیچی اور خریدی جاتی ہیں اور یہ جاپان اور کوریا سے امپورٹ بھی کی جاتی ہیں۔

غرضیکہ یہ ایک غیر معمولی اور کئی جہتوں میں پھیلا کار و بار ہے۔ یہاں بس سوچنے والی بات یہ ہے کہ سیکنڈ ہینڈ اگر لباس ہو اور پرانے کپڑوں کے بازار میں فروخت ہورہا ہو تو اسے لنڈے کا مال کہتے ہیں۔ ہر چند کہ سفید پوش تو لنڈے کا مال بے جھجک استعمال کرتے ہیں ۔لیکن جن کی جیب میں نوٹوں کی گرمی تھوڑی زیادہ ہو وہ لنڈا بازار کے قریب سے بھی گزریں تو تیز تیز گزرتے چلے جاتے ہیں کہ ناگاہ کوئی دیکھ لے۔

مگر یہی لوگ لنڈے کی گاڑی سے اتر کر اس کی چابی انگلی میں یوں گھما رہے ہوتے ہیں جیسے مائیکل شوماکر کے خاندان سے ہوں۔ لنڈے یعنی سیکنڈ ہینڈ کپڑوں اور جوتوں سے تو آپ بخوبی واقف تھے لیکن اس جانب شاید پہلی بار متوجہ ہوئے کہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی تو فی الحقیقت لنڈے کی ہی گاڑی ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک تیسری چیز بھی فی الحقیقت لنڈے کی ہے اور سیکنڈ ہینڈ گاڑی کی طرح بھرم بازی کے کام آتی ہے مگر آپ اس کے اس پہلو سے آگاہ نہیں۔

یہ تیسری چیز لنڈے کی گاڑیوں کی طرح سارا سال مارکیٹ نہیں ہوتی بلکہ لنڈے کے کپڑوں کی طرح اس کا سیزن ہوتا ہے اور اس کا بازار اپنے سیزن پر ہی لگتا ہے۔ میری مراد وہ سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز ہیں، عام انتخابات جن کا سیزن ہوتا ہے۔ جمہوریت کی چھتری تلے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا وہ نظم روبعمل ہوتا ہے جس کے پیچھے فلسفے، کلام اور سوشل سائنسز کے علوم کی ہزاروں برس کی روایت کھڑی ہے ۔ وہ روایت جس نے کئی نظریات کو جنم دیا ہے۔

بات جب نظریے کی ہو تو اس کا مطلب مکمل وابستگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا مگر جس ملک میں جمہوریت انسانی فلاح و بہبود کے بجائے تجارت بن چکی ہو وہاں پھر اس حوالے سے بھی بازار ہی قائم ہوسکتے ہیں۔ بازاروں کی اقسام کی فہرست تب تک تمام ہی نہیں ہوسکتی جب تک اس میں لنڈا بازار بھی شامل نہ ہو۔ سو ہماری جمہوریت کے بہت سے بازاروں میں اگر ایک بازار ان سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز کا بھی ہے جو اپنی حقیقت میں جمہوریت کا لنڈا ہیں تو یہ حیران ہونے سے زیادہ ماتم کا مقام ہے۔ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتی نون لیگ اس کی جگہ لیتی اور نون لیگ کو رخصت کیا جاتا تو پیپلز پارٹی کی واپسی یقینی ہوتی۔

اس دور میں یہ سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز ہر بار بس دائیں بائیں ہوتے رہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتی تو لنڈے کا یہ مال نون لیگ اٹھا لیتی اور نون لیگ کو چلتا کیا جاتا تو یہی مال پیپلز پارٹی تھرڈ ہنڈ مال کے طور پر سنبھال لیتی۔ مگر اب کچھ سالوں سے ایک تیسری پارٹی پاکستان تحریک انصاف بھی میدان میں ہے اور پچھلے دو انتخابات میں جمہوری لنڈے کی سب سے بڑی خریدار وہی رہی ہے۔ فرق بس یہ تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل اور انتخابی نتائج کے فورا بعد جو لنڈا اس نے اٹھایا کیمروں کے روبرو اس کی ہر “جینز” کے گلے میں اپنا مفلر ڈالنے کا انتظام بھی کیا۔ تاکہ سیاسی دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ سیاسی لنڈا حاصل کرنا ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔

2018ء میں پیپلزپارٹی ہماری جمہوری تاریخ کا سب سے بڑا لنڈا بازار جبکہ تحریک انصاف لنڈے کی سب سے بڑی خریدار ثابت ہوئی ۔ بروکروں نے سر توڑ کوشش کی کہ نون لیگ سے بھی کوچھ پھٹی جینز چھینی جاسکیں مگر بے بسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ہرچند کہ زیادہ تر سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز اتوار اور جمعہ بازار سے اٹھائے گئے لیکن اس جماعت کے پاس سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک امپورٹڈ ری کنڈیشن گاڑیوں کی طرح اتحریک انصاف کے پاس چوہدری سرور جیسا ری کنڈیشن امپورٹڈ امیدوار بھی تھا۔

اور یہ پھٹی جینز ہی وہ کل قال ذکر اثاثہ تھا جو نون لیگ سے چھینا جا سکا۔ اس کے پاس جہانگیر ترین جیسا الیکٹیبل بھی تھا جو آج کی تاریخ میں کسی نئے گاہک کی راہ تک رہا ہے۔ جہاگیر ترین کو یہ منفرد مقام بھی حاصل ہے کہ نہ صرف خود لنڈا ہونے کی شناخت رکھتے ہیں بلکہ مزید لنڈے کے لئے مقناطیس کا کام بھی دیتے ہیں۔ عمران خان کو یہ جنرل مشرف کے کباڑی بازار میں پسند آگئے تھے، اور ہت شوق سے انہیں حاصل کیا تھا۔

فواد چوہدری پی ٹی آئی تھرڈ ہینڈ الیکٹیبل ہیں کہ یہ فرسٹ ہینڈ میں مشرف کے پاس تھے، سیکنڈ ہینڈ میں پیپلز پارٹی کا مال رہے اور آج کل ان کے جملہ حقوق خان صاحب کے نام محفوظ نظر آتے ہیں ہیں۔ لنڈا بازار کی پچھلی گلی میں ان کی نسبت سے چلتے کسی نئے ممکنہ سودے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے پاس ایسے سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو افغان ٹرانزٹ گاڑیوں کی طرح قانون کو مطلوب ہیں اور یہ وہاں اپنا انجن و چیچس نمبر تبدیل کروا کر ’’صاف و شفاف‘‘ ہونے گئے۔ جس طرح سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں بس سیکنڈ ہینڈ ہی نہیں رہتیں بلکہ یہ تھرڈ، فورتھ اور ففتھ ہینڈز سے ہوتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھتی ہیں یہاں تک کہ کراچی کی سڑکوں پر ستر اور ساٹھ کی دہائیوں کی ایسی گاڑیاں بھی عام نظر آجاتی ہیں جنہیں اب خود بھی یاد نہیں کہ ان کا موجودہ مالک دسواں ہے کہ بیسواں ؟

بالکل اسی طرح پی ٹی آئی میں بھی کئی الیکٹیبلز ایسے ہیں جنہیں اب خود بھی یاد نہ ہوگا کہ ان کے خریداروں میں خان صاحب کا نمبر کونسا ہے ؟ یہ پچھلے تیس پینتیس سال سے ہر الیکشن میں اس ہاتھ سے اس ہاتھ ہوتے آئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اتنے پرانے ہوگئے ہیں کہ اب دھواں چھوڑنے لگے ہیں۔

نواز شریف کی جبری نااہلی کے بعد قدرے بہتر حالت والے سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز تو خاموشی سے پی ٹی آئی میں گئے مگر جنوبی پنجاب سے خریدے گئے ایک پرانے ٹرک نے بہت دھواں بھی چھوڑا۔ ان سیکنڈ ہینڈ الیکٹیبلز میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نہ تو افغان ٹرانزٹ قسم کے تھے، نہ ری کنڈیشن تھے اور نہ ہی اتوار یا جمعہ بازار سے حاصل کئے گئے۔ یہ تو میڈیا کی دنیا سے ہیں انہیں تو ایک بڑے اخبار کے کلاسیفائیڈ سے حاصل کیا گیا۔

لنڈے کا مال تو خان صاحب نے بہت جمع کرلیا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ انتخابات کی شاہراہ پر ان میں سے ٹائر کس کس پھٹنے ہیں، چالان کن کن کا ہونا ہے، انجن کس کس کا سیز ہونے ہے اور دھواں کون کون مارے گا۔ لنڈے کے مال کی گارنٹی تو کوئی نہیں ہوتی۔ سو ہوا بھی یہی بعض تو بک کر بھی کسی کام نہ آئے۔ مگر جہانگیر ترین جیسے کا تو الیکشن سے قبل ہی انجن سیز ہوگیا۔

اگر کسی کو یاد ہو تو اس سیز انجن کے باوجود عمران حکومت نے ابتدائی ایام میں انہیں کابینہ اجلاسوں تک میں شرکت کروائی۔ کیونکہ انہوں نے انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کے حصول میں اپنے مالک کی بہت مدد کی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ پنجاب میں بیٹھ خیبر پختون خوا حکومت پر بھی اپنا کنٹرول تقریبا قائم کرچکے تھے۔ مگر مالک نے کیا ان کے ساتھ وہی جو لنڈے کے مال کے ساتھ کیا جاتا ہے، اتارا اور پھینک دیا۔

اسی درجے کے ایک سیکنڈ ہینڈ ٹرک علیم خان بھی ہیں۔ ان کا انتخابات سے قبل ہی انجن تو سیز نہ ہوا تھا، انہیں الیکشن جتوا بھی دیا گیا۔ لیکن بعد از الیکشن جب مالک نے دیکھا کہ ان کا انجن ضرورت سے زیادہ قوت دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو ریڈی ایٹر میں کچرا بھر کر اس انجن کی وہ حالت کردی کہ یہ فرلانگ بھر بھی دوڑتا تو ہیٹ اَپ ہوجاتا۔ یوں یہ ٹرک بھی پارکنگ لاٹ میں پہنچ گیا۔ اور اب جہانگیر ترین کی طرح یہ سیکنڈ ہینڈ ٹرک بھی اس وقت کسی نئے مالک کی راہ تک رہا ہے۔

مگر بات بس ان دونوں پر تمام نہیں ہوتی۔ راجہ ریاض اور نور عالم خان جیسے کے کچھ پرانے مٹسوبشی بھی اس پارکنگ لاٹ میں کھڑے ہیں۔ جبکہ کچھ سیکنڈ ہینڈ رکشے اور چنگ چی بھی اسی پارکنگ لاٹ کے ایک کونے میں نظر آرہے ہیں۔ آثار بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ پارکنگ لاٹ چھوٹا پڑنے والا ہے۔ سیزن سر پر ہے، خریداری ہوگی اور ضرور ہوگی۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ ووٹ کی حرمت کا ڈھول پیٹنے والی نون لیگ بھی اس لاٹ میں سے کچھ اٹھاتی ہے یا نہیں ؟

اگر اس کچرے میں سے نون لیگ نے کچھ اٹھایا تو اس کا ووٹ کی حرمت والا ڈھول پھٹنے میں دیر نہ لگے گی۔ نون لیگ اگر اپنا ایمیج بہتر رکھنا چاہتی ہے تو سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے اس لنڈا بازار سے دور رہے۔ اور یہ بات ہر لمحہ یاد رکھے کہ 2018ء میں اس کے الیکٹیبلز نے لنڈا بننے سے انکار کرکے اس پارٹی کو عزت بخشی ہے، اسے ہر حال میں قائم و دائم رکھنا ہے۔

لنڈا بننے سے انکار کی طرح لنڈا خریدنے سے انکار بھی لازم ہے۔ ورنہ کسی برے وقت میں یہ سیکنڈ ہینڈ ٹرک دھواں ضرور ماریں گے۔ اور اتنا ماریں گے کہ نون لیگ کی قیادت کے لئے سانس لینا دشوار کردیں گے۔ یہ کچرا پیپلز پارٹی کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اس کے ٹکٹ پر یہ جیت بھی جائیں تو نون لیگ کے لئے یہ خسارے کا سودا نہ ہوگا۔

Related Posts