کراچی :کراچی میں وفاقی ملازمین کی قدیم آبادی جہانگیر روڈ میں غیر قانونی طور پر بنائے گئے 100 مکانات گرانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اس سلسلے میں ان مکانات میں رہنے والے افراد کو پی ڈبلیو ڈی کی جانب سے نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ سرکاری مکانات پر غیر قانونی تعمیرات اور خرید و فروخت میں پولیس کے ملوث ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کی کارروائی کے بعد وفاقی سرکاری مکانات کا سروے کیا ہے جس میں ابتدائی طور پر جہانگیر روڈ کے قریب واقع وفاقی مکانات پر 100 کے قریب رہائشی عمارتیں غیر قانونی طریقے سے تعمیر کی گئی ہیں جن کے مکین نہ ہی وفاقی ملازمین ہیں اور نہ ہی ان مکانات کے دعوے دار وفاقی ملازمین ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان مکانات کی ویڈیو اور تصاویر رپورٹ کی صورت میں ورکس اینڈ ہائوسنگ حکام کو ارسال کر دی گئی ہیں اور ان عمارتوں میں رہنے والوں کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ ان مکانات کو جلد ہی مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں :زرداری گروپ کی بلاول ہاؤس کے اطراف بنگلوں کی زبردستی خریداری پر نیب تحقیقات شروع
ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر جہانگیر روڈ کے قریب موجود وفاقی سرکاری مکانات پر غیر قانونی تعمیرات کرنے والے افراد کو نوٹس جاری کیے ہیں، وفاقی سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ اور سرکاری ملازمین کو قبضہ فراہم کرنے کی ذمہ داری اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پر ہوتی ہے جبکہ ان سرکاری مکانات پر تعمیراتی کام کی ذمہ داری پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ کی ہے اور اسی بنیاد پر پی ڈبلیو ڈی کے حکام ہی ان غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں درج ہونے والے مقدمہ الزام نمبر 08/2019 میں گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری مکانات پر تعمیر کے لیے مقامی تھانے کے افسران سے باقاعدہ معاملات طے ہوتے ہیں اور تھانے کے افسر کو 10 ہزار سے ایک لاکھ تک کے درمیان رشوت دی جاتی ہے، جبکہ یومیہ دو موبائلوں کو دو ہزار روپے علیحدہ دیے جاتے ہیں تاکہ تعمیرات میں مسائل پیش نہ آئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان وفاقی سرکاری مکانات کی اسٹامپ پیپر پر خرید و فروخت میں سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کو کمیشن بھی دیا جاتا ہے جس کے بعد مکان کو خریدنے والا قبضہ حاصل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے سندھ زون میں ستمبر 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹرز اور اس وقت کے قائمہ کمیٹی برائے ورکس اینڈ ہائوسنگ کے سربراہ مولانا تنویرالحق تھانوی کی جانب سے ایک درخواست دی گئی تھی جس میں کراچی کے وفاقی مکانات پر قبضے کی نشاندہی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں :کے ڈی اے افسران کے خلاف نیب انکوائری بند کرنے کی منظوری