ملک میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے حالیہ پیش رفت تشویشناک ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکمران جماعت کا ردعمل کسی بھی طرح آئین و قانون کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنے کے بجائے موجودہ حکومت اسے اقلیتی ججز بینچ کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں جو کہ نہ صرف عدلیہ کی توہین بلکہ قانونی نظام کی ساکھ کو بھی مجروح کرنے سے کم نہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال شامل تھے۔ اس لیے یہ فیصلہ ملک کے قانونی نظام کی اعلیٰ ترین اتھارٹی نے کیا۔
سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کا اکتوبر میں انتخابات کرانے کا فیصلہ خلاف قانون قرار دینا ٹھوس قانونی اصولوں پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے تمام الجھنیں دور ہو گئی ہیں اور ماہرین قانون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انتخابات 90 دن کے اندر کرائے جائیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرے اور انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے انجام دینے کو یقینی بنائے۔
حکمران جماعت کی انتخابات سے بچنے کی خواہش نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ یہ جمہوریت کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک میں جمہوریت کی بالادستی کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے اور حکمران جماعت کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کھیلنا خطرناک ہو سکتا ہے، اور اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔
قانونی نظام کسی بھی جمہوری ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر حکمران جماعت اسے کمزور کرتی رہی تو یہ ملک میں انتشار اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے اس سال اپریل میں عمران خان کو بطور وزیر اعظم حکومت سے ہٹانے کیلئے جمہوری عمل یعنی تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار کی۔
اس لیے حکمران جماعت کو اپنے اعمال کے نتائج سے آگاہ ہونا چاہیے اور ملک کے قانونی نظام کا احترام کرنا چاہیے۔ آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ انتخابی عمل قانونی فریم ورک کے تحت بے حد ضروری ہے۔ قانونی نظام کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں اور خود حکمراں جماعت کو بھی اس حوالے سے دانش مندانہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔