پاکستان میں آزادئ اظہار کی موجودہ صورتحال اور صحافیوں کو درپیش خطرات

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں آزادئ اظہار کی موجودہ صورتحال اور صحافیوں کو درپیش خطرات
پاکستان میں آزادئ اظہار کی موجودہ صورتحال اور صحافیوں کو درپیش خطرات

شعبۂ صحافت اور آزادئ اظہار کیلئے پابندیاں، قید و بند اور قتل جیسے ظالمانہ اقدامات نئے نہیں ہیں بلکہ جب سے بنی نوع انسان نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا، صحافیوں پر ظلم و ستم کی داستان بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے۔

گزشتہ روز سینئر صحافی مطیع اللہ جان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے جو بعد ازاں فتح جنگ سے بازیاب ہوئے، اس پر عوام الناس کو مطیع اللہ جان نے ایک پیغام بھی دیا۔

مطیع اللہ جان کا پیغام

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ میں حفاظت کے ساتھ اپنے گھر واپس پہنچ گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے اہلِ خانہ پر کرم فرمایا۔

صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ میں دوستوں، قومی و عالمی صحافی برادری، سیاسی جماعتوں، سوشل میڈیا ، انسانی حقوق کے علمبرداروں، وکلاء تنظیموں اور عدلیہ  کا تیز ردِ عمل پر شکریہ ادا کرتا ہوں، جس سے یہ ممکن ہوا۔

 

اغواء کے پیچھے مقاصد 

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مطیع اللہ جان کا کیس ہمارا موضوع نہیں ہے بلکہ ہم عمومی طور پر صحافیوں کے اغواء اور قتل سمیت دیگر ظالمانہ اور پرتشدد واقعات کی بات کر رہے ہیں جو وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا بھر میں رونما ہورہے ہیں۔ 

وفاقی یا صوبائی حکومت، سیاسی جماعتیں اور دیگر تنظیمیں اپنی جگہ، کسی صحافی کو اغواء کرنے کے پیچھے ہمیشہ آزادئ اظہار کو دبانا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے کیونکہ صحافی سچ کو عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں جو جرائم پیشہ یا سازش پسند عناصر کیلئے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ مطیع اللہ جان کے نظریات سے کچھ سیاسی جماعتوں، زعماء یا حکام کو خطرات لاحق ہوں جن کے پیشِ نظر مطیع اللہ جان کو اغواء کیا گیا اور بعد ازاں اسے چھوڑ دیا گیا، تاہم یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آئیے اِس قسم کے دیگر واقعات پر غور کرتے ہیں۔

آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن کے چند واقعات

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ملیحہ لودھی انگریزی اخبار دی نیوز کی ایڈیٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ دی نیوز میں ایک طنزیہ نظم شائع ہوئی جس میں وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف پر چند پھبتیاں کسی گئیں جس پر ن لیگی حکومت حرکت میں آگئی۔

وفاقی حکومت نے دی نیوز انتظامیہ کے خلاف نقصِ امن کا مقدمہ درج کیا جس پر صحافی برادری طیش میں آگئی۔ صحافیوں نے مقدمے پر بھرپور احتجاج کیا جس پر ن لیگی حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔ وفاقی حکومت نے مقدمہ واپس لے لیا جس کے بعد جا کر یہ طوفان تھما۔

بعد ازاں نجم سیٹھی کو مئی 1999ء کے دوران گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ فرائڈے ٹائمز تھے جس میں حکومت کے خلاف کچھ ایسی باتیں کہی جارہی تھیں جو حکومت سے ہضم نہ ہوئیں جس پر نجم سیٹھی کی 1 ماہ تک حوالات میں مہمان نوازی کی گئی، بہرحال سپریم کورٹ نے کہا کہ نجم سیٹھی کے خلاف مقدمات بے بنیاد ہیں اور نجم سیٹھی رِہا ہوئے۔

اب تک تو ہم بیسویں صدی کی بات کر رہے تھے، لیکن 21ویں صدی میں داخل ہونے کے بعد بھی صحافی برادری قدغنوں سے آزاد نہ ہوسکی۔ 2014ء میں سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ پیمرا نے نجی ٹی وی کا لائسنس بھی منسوخ کیا۔

صحافت کے باعث قتل ہونے والے صحافی

مالٹا سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ڈیفنی کیروانا گیلیزیا کو ملک میں سیاسی چالیں بے نقاب کرنے اور سیاستدانوں کی بدانتظامی پر رپورٹنگ کے باعث 16 اکتوبر 2017ء میں قتل کیا گیا۔ ان کی گاڑی میں دھماکہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ڈینیل پرل، گیلرمو کینو اور پاکستان کے صوبہ سندھ میں عزیز میمن بھی ایسے صحافی ہیں جنہیں قتل کردیا گیا۔ عزیز میمن کے قتل کو زیادہ وقت نہیں گزرا کیونکہ یہ فروری 2020ء کی بات ہے۔ 

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ

مئی 2020ء میں فریڈم نیٹ ورک نے آزادئ اظہار پر لگنے والی قدغنوں، صحافیوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور دھمکیوں پر ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 1 سال میں صحافیوں پر تشدد کے کم و بیش 91 واقعات رجسٹر کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مئی سے لے کر رواں برس اپریل تک ہر ماہ 7 سے زائد ناخوشگوار واقعات ایسے تھے جن سے صحافی متاثر ہوئے۔ فریڈم نیٹ ورک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی گوشہ صحافیوں کیلئے محفوظ  نہیں۔

سب سے زیادہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو خطرناک قرار دیا گیا۔ صوبہ سندھ کو ودسرا جبکہ پنجاب کو تیسرا بد ترین علاقہ قرار دیا گیا جہاں بالترتیب 27 فیصد اور 22 فیصد تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ٹی وی صحافیوں پر 69 مقدمات قائم کیے گئے۔ 

مسائل کا حل کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ صحافی برادری حق کی علمبردار ہے جو حقائق عوام کے سامنے لانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور زعماء کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی وقت قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کے خلاف کارروائی یا جرائم شروع کردئیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب زرد صحافت کے علمبرداروں کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ صحافت کے نام پر عوام کو حقائق کا وہ رخ دکھانے کی کوشش بھی جاری ہے جو حقیقت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ دنیا کے بے شمار اخبارات، میڈیا چینلز اور دیگر  ذرائع ابلاغ اپنی من پسند خبریں چلا کر دیگر خبروں سے صرفِ نظر کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں مسائل کا حل صرف اصلاحات میں ہے۔ کسی بھی ریاست کے تین بنیادی ستون عدلیہ، مقننہ اور عسکری قیادت ہوتی ہے جبکہ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے کیونکہ عوام کے نزدیک سچائی وہی ہوتی ہے جو میڈیا انہیں دِکھاتا ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اگر صحافی برادری کو تحفظ دینا ،  ملک کے نظامِ حکومت کو درست خطوط پر چلانا  یا کسی واضح سمت میں خوشحالی و ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے ریاست کے تمام تر ستونوں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ 

Related Posts