ارشاد باری تعالی ہے
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
(حجرات آیت13)
ترجمہ: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
آیئے اس آیت کو سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی کل بنی نوع انساں سے مخاطب ہیں فقط مسلمانوں سے نہیں۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ مسلمان خدا کی کلچر والی آفاقی سکیم کو اچھی طرح سمجھ جائیں۔ اور اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ اس سکیم کا تعلق بس مسلمانوں سے ہی ہے۔
جو کلیدی بات اس آیت میں بیان ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے بانٹا کہ تم شناخت پاسکو اور آپس میں متعارف ہوسکو۔ سوال یہ ہے کہ یہ شناخت کیا ہے اور متعارف ہونا کیوں اتنا ضروری ہے کہ اللہ کو اس کے لئے باقاعدہ اسکیم لانچ کرنی پڑی ؟
شناخت کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ہم اپنے قبیلے میں کھڑے ہیں تو بطور فرد ہماری اتنی شناخت کافی ہے کہ ہمارا نام کیا ہے ؟ اور ہم جس کی اولاد ہیں اس نام کیا ہے ؟ اس سے زیادہ ہمارا ہم قبیلہ ہم سے کچھ نہیں پوچھے گا۔ لیکن قوم قبیلہ تو فرد کی شناخت کا معاملہ نہیں ایک گروہ یعنی ایک پورے سماج کے تعارف کا معاملہ ہے۔
سو ہماری قوم اور قبیلے سے باہر کا آدمی جب ہمیں جاننا چاہے گا تو اس کا مقصد صرف نام اور ولدیت جاننے سے پورا نہیں ہوگا۔ ابھی عرض کرتے ہیں کہ کیوں ؟ لیکن بات تب تک کھلے گی نہیں جب تک آپ انسان کی شناخت حاصل نہ کرلیں۔ سو آیئے پہلے اسی کو جانتے ہیں۔
انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے زمین اور اس کے اطراف میں پھیلی کائنات پر تصرف حاصل ہوگا۔ یہ سمندر کا رخ کرے گے تو اس کی تہ کو بوسہ دے آئے گا، پہاڑوں کا رخ کرے گا تو 28 ہزار کی بلندی اپنے پیروں تلے روند ڈالے گا۔
صحرا میں اترے گا تو اس کی یکسانی کو مذاق بنا کر رکھدے گا۔ اور صرف یہی نہیں کہ سطح زمین پر پڑی چیزوں کی تسخیر کرے گا بلکہ جب یہ نظر اٹھا کر ستاروں کو دیکھے گا تو بس دیکھنے پر قناعت نہ کرے گا، انہیں چھونے کی ضد پکڑ لے گا اور چھو کر دکھائے گا۔
اب زمین تھی متنوع۔ کہیں جنگل، کہیں، میدان، کہیں صحرا، کہیں دریا، کہیں بلا کی خشکی تو کہیں برف زار۔ ایسے میں انسان کو بھی باقی جانوروں کی طرح بنا دیا جاتا تو یہ بھی بس انہی کی طرح کھانے پینے، افزائش نسل اور سونے تک رہتا اس تنوع کو تسخیر نہ کرتا۔
سو اسے اس سسٹم سے لیس کیا جو اسے چین سے نہ بیٹھنے دے، اور تسخیر پر مجبور کرے۔ اس سسٹم کا نام ہے عقل۔ اور اس عقل میں انسٹال کیا ایک سافٹویئر جسے کہتے ہیں “نفسیات”۔
یوں انسان کی نفسیاتی ساخت ایسی ہے کہ یہ ایک رنگ میں نہیں جی سکتا۔ اس کی حیات کے لئے تنوع و جمالیات اہم ترین ضرورت ہیں جس سے زمین اس کی آمد سے پہلے ہی بھری پڑی تھی۔
چنانچہ یہ اس جمالیاتی سکیم کا ہی نتیجہ ہے کہ اگر تمام انسان ایک ہی طرز حیات پر ہوتے تو انسانیت کا وجود کب کا مٹ چکا ہوتا اور مرتے بھی یوں کہ سب سے پہلے بور ہوتے، پھر نفسیاتی مریض بنتے اور پھر مکمل پاگل ہوکر ایک دوسرے پر ہی پل پڑتے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے، بلکہ یہ ہوکر رہتا۔ آپ ذرا کسی کے سامنے ایک کھانا تین دن رکھ کر دیکھ لیجئے۔ لگ پتہ جائے گا کہ یکسانیت اس کی نفسیات سے کس قدر متصادم شئی ہے۔
اپنی ذات سے باہر ہی نہیں بلکہ اندر بھی اسے جمالیات و تنوع سے آراستہ ہونا ضروری تھا۔ ذرا ایک لمحے کو فرض کیجئے تمام انسانوں کی شکل مبشر زیدی جیسی ہوتی تو کیا حال ہوتا ؟ سو اس کی ذات میں جمالیات کا آغاز ہی اس کی قومیت اور قبیلے سے کر دیا گیا۔یوں رنگ و نسل کا تنوع آگیا۔ ہر قوم قبیلے کی جسمانی ساخت ہی نہیں نین، نقش، بولی اور صوتی آہنگ بھی دوسری اقوام سے مختلف۔
صرف یہی نہیں بلکہ ہر قوم، قبیلے کا ایک لائف سٹائل ہوتا ہے۔ اور یہ لائف سٹائل اس کے پانی پینے جیسے چھوٹے سے عمل سے شروع ہوکر لکھائی، پڑھائی، شاعری، موسیقی اور رقص تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اور لائف سٹائل اس کے جغرافیے، موسم اور نفسیات کے اشتراک سے بنتا ہے۔ حتی کہ اس کی غذاؤں میں بھی جغرافیے اور اور موسم کا عمل دخل ہوتا ہے۔اور یہیں سے فرد کی طرح قبیلے کا بھی اپنا ایک مزاج وجود میں آجاتا ہے۔ اور یہ جتنی بھی چیزیں ہیں سب کی سب اس کی “شناختی نشان” بن جاتی ہیں۔
امید ہے یہ تو سمجھ آگیا ہوگا کہ “تعارف” کیا ہے ؟ اب آجایئے اس سوال کی جانب کہ یہ تعارف اتنا ضروری کیوں ہے کہ اس کے لئے خدا کو کلچر کی عظیم الشان سکیم لانچ کرنی پڑی ؟ یہ اس لئے ضروری ہے کہ انسان سماجی جاندار ہے۔ یہ اجتماع کے بغیر جی ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ کسی انسان کے لئے سب سے بدترین سزا یہ ہوتی ہے کہ اسے تنہاء کردیا جائے۔
ایک سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا پانے والا مجرم جب جیل میں کوئی حرامی پن کردے تو وہاں اسے اس حرامی پن کی سزا یہی دی جاتی ہے کہ باقی قیدیوں سے کاٹ کر مکمل قید تنہائی کا شکار کردیا جاتا ہے۔ اور اس تنہائی سے جب وہ صرف ایک ماہ بعد باہر نکالا جاتا ہے تو اس کی حالت نیم پاگلوں جیسی ہوچکی ہوتی ہے۔
اب جب انسان سماجی جاندار ہے تو یہ طے ہوا کہ اسے باہم معاملات کرنے پڑیں گے اور یہ تسخیر کائنات کی سرگرمی باہمی اشتراک سے کرے گا۔ اور اسے یہ باہمی معاملات اس حد تک کرنے پڑیں گے کہ افریقی صحراؤں کے انسان کو سائبیریا کے برفانی انسان سے معاملات کرنے پڑیں گے اورایشیا کی بلند چوٹیوں کا انسان یورپ کے حیرت کدوں کا رخ کرے گا، غرضیکہ کہ زمین کا ہر کونا دوسرے کونے سے ملنے کو روانہ ہوگا۔ اور طویل مسافتوں والے ملاقاتی جغرافیائی و موسمی تغیر کا زمین و آسمان جتنا فرق رکھتے ہیں جس کے سبب ان کا مزاج بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوگا اور بود و باش بھی۔
اب اگر روسی انسان نے یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ افریقی انسانوں کا لائف سٹائل اور مزاج کیا ہے اور نہ ہی افریقی انسان اس تکلف میں پڑا تو طے ہے کہ ان کے بیچ معاملات نہیں ہوسکتے۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ اکتا کر ایک دوسرے کو مار ہی ڈالیں۔ ذرا مائیکرو لیول پر یوں سمجھ لیجئے کہ فرض کیا آپ کی قوم کے لوگ تیز مرچ مسالے والے کھانے کھاتے ہیں۔ اور مہمان ایسے علاقے سے آگیا جہاں مرچ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ اب آپ نے بڑے فخر سے اس کے سامنے اپنی سب سے اہم روایتی ڈش رکھدی کہ مہمان متاثر ہوگا اور داد دے گا۔ لیکن ہوگا یہ کہ وہ دسترخوان پر بھی “سی سی” کرے گا اور اس سے زیادہ سنڈاس میں بھی۔ اور صبح ہوتے ہی وہ آپ کے علاقے سے بھاگے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ممالک ثقافتی طائفوں، اور پیپلز ٹو پیپلز کنٹیکٹ کی راہ اختیار کرچکے تاکہ قومیں “متعارف” ہوسکیں۔ اور جان سکیں کہ کس قوم کا لائف سٹائل کیا ہے ؟ اور اس کے ساتھ معاملات کرنا آسان تر کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ معلوم نہیں ہوگا تو انسان آگے نہیں بڑھ سکے۔ عالمی سطح پر سماجی نظام ہی درھم برھم ہوجائے گا۔
اب سب سے اہم نکتہ سمجھ لیجئے۔ اس دنیا میں اسلامی تہذیب یا اسلامی کلچر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ مسلم تہذیب اور مسلم کلچر کا وجود ہے۔ فتوؤں کا پتھراؤ کرنے سے قبل ذرا سمجھ لیجئے کہ ایسا کیوں ہے ؟ قرآن مجید کی پہلی آیت سے والناس تک چلے جایئے، آپ کو کہیں یہ خدائی فرمان نہیں ملے گا کہ اوپر کے دھڑ کے لئے تمہاری شرٹ کیسی ہونی چاہئے۔ اور نچلے دھڑ کے لئے شلوار ہونی چاہئے، پتلون، دھوتی یا کچھ اور۔ تمہاری خوراک کیسے پکنی چاہئے ، تمہارے بستر اور تکیے کیسے ہونے چاہئیں، تمہارے برتن کس دہات اور رنگ کے ہونے چاہئیں۔
غرضیکہ لائف سٹائل کے کسی بھی جزو کی ساخت کو اللہ سبحانہ و تعالی نے مکمل طور پر قوم اور قبیلے کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ بس موٹی موٹی کچھ حدود بیان فرما دی ہیں۔ مثلا یہ کہ مرد کا ناف سے لے کر گھٹنوں تک حصہ مستور رہنا لازم ہے ورنہ ہم باز پرس اور سزا کاچیپٹر کھول دیں گے۔
اب آپ ڈھکتے کیسے ہیں یہ آپ کی مرضی، ہمارا حکم بس اتنا ہے کہ یہ حصہ نظر نہیں آنا چاہئے۔ یہی حکم خواتین کے لئے سر کے بالوں سے لے کر ٹخنوں تک ہے۔ اب ماڈرن ذہن پوچھے گا کہ اس بیچاری کو سارا کیوں ڈھک دیا ؟ تو بھئی سادہ سی بات ہے مرد کے پاس اگواڑے اور پچھواڑے کے سوا ہے ہی کیا جسے خطرہ ہو ؟ اس کے برخلاف عورت کا تو پورا جسم ہی “بیش قیمت خزانہ” ہے۔ یقین نہ آئے شاعری اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ عورت کے معاملے میں شاعر سر کے بال سے شروع ہوکر ٹخنوں تک آتا ہے کہ نہیں ؟ جون ایلیا کی وہ نظم ہی دیکھ لیجئے
“صندلیں جسم مل رہی ہوگی”
ایسا کوئی مصرع یا پوری نظم مرد کے بارے میں ملتی ہے ؟
اسی طرح خوراک کے معاملے میں حلال و حرام کا اصول دیا مگر اس بات میں دخل بالکل نہیں دیا کہ تم نے اپنا حلال پکانا کیسے ہے۔ جب قرآن و حدیث دونوں لائف سٹائل اور کلچر کی تشکیل والے موضوع پر خاموش ہیں اور اصول ہے کہ جہاں یہ دونوں خاموش ہوں وہاں انسان کی اپنی مرضی شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ مسلم انسانوں نے یہ کیا کہ اسلام کی آمد سے قبل والے لائف سٹائل کو احکام الہی کے مطابق ترامیم سے گزار لیا۔
یہاں تک کہ عرب لباس کی بناوٹ تک میں بس اتنی ترمیم ہوئی کہ اس میں سے تکبر کا عنصر نکال دیا گیا۔ برتنوں میں سے شراب سنبھالنے اور پینے والے برتن خارج ہوگئے اور باقی جوں کے توں رہے۔ یہاں تک کہ پگڑی بھی مشرکین مکہ کے دور سے چلی آرہی ہے یہ اسلام نے نہیں دی۔ہاں یہ ہے کہ مسلمان اگر سنت پر عمل کرنا چاہیں تو پھر پگڑی باندھنے کا سٹائل عین رسول اللہ ﷺ والا رکھتے ہیں اور یوں وجود میں آیا پہلے مسلم کلچر اور پھر مسلم تہذیب۔ مسلم کلچر یا مسلم تہذیب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا تشکیل کردہ کلچر اور تہذیب۔ اسلامی کلچر یا اسلامی تہذیب کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ یعنی اسلام کا دیا ہوا کلچر۔ تو اسلام نے تو کلچر والے معاملے کو کلی طور پر مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے۔ اسلام کا سارا فوکس اخلاق پر ہے۔
جب ہم اس پورے پس منظر پر غور کرتے ہیں تو یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں
٭ کلچر ایک خدائی اسکیم ہے
٭ کلچر کی تشکیل انسانوں کی مرضی پر ہے
٭ قوم اور اس کا کلچر تعارف کے لئے ہے
٭ تعارف کا مرکزی عنصر مذہب نہیں قوم اور کلچر ہے
اب ایسے میں اس انسان سے بڑا بیوقوف کوئی ہو سکتا ہے جو اپنی ان شناختوں کا ہی دشمن ہوجائے اور اپنی قومی شناختوں کو چھوڑ کر دوسری قوموں کی شناختیں اختیار کرلے ؟ یہ تو نظام فطرت سے ٹکرانے والی سرگرمی ہوئی۔ کبھی غور فرمایا ہے کہ ہمارے ہاں یہ حرکت سب سے زیادہ کون کرتا ہے ؟ دو طبقے ہیں۔
ایک وہ جو اپنا کلچر پھینک کر مغربی لباس اور تمدن اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی مغربیت سے مرعوب ذہن۔ اور دوسرے وہ جو اپنا کلچر پھینک کر عربوں کے چوغے اوڑھ لیتے ہیں یعنی ہمارا مولوی۔یہ دونوں عقل سے ہی فارغ نہیں بلکہ خدا کی اتنی عظیم الشان سکیم سے متصادم ہیں۔ حد یہ ہے کہ مولوی ہماری اردو سوشل میڈیا پوسٹ پر عربی میں کمنٹ کرنا باعث فخر سمجھتا ہے اور لبرل یہی تیر انگریزی میں مار کر خود آئن سٹائن سمجھ لیتا ہے۔
ان کو تو اتنا بھی شعور نہیں کہ اس کرہ ارض پر مسلم کلچر سے زیادہ وسیع اور متنوع کوئی کلچر نہیں۔ آپ ملیشیا چلے جائیں تو مسلم کلچر کا ایک رنگ، انڈیا آجائیں تو الگ رنگ، مشرق وسط چلے جائیں تو ایک اور ہی رنگ، یورپ جائیں تو وہاں کا مسلم کلچر ایک الگ انفرادیت کے ساتھ، روس کی جانب گھومیں تو الگ مناظر اور افریقہ جائیں تو ایک اور ہی حیرت کدہ نظروں کے سامنے۔ اور یہ سارے رنگ ہمارے اپنے ہی رنگ۔ لیکن چونکہ قوم، قبیلے سب کے الگ الگ ہیں تو کلچر کے رنگ بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ دنیا کا کونسا مذہب ہے جس کے ماننے والوں کے پاس اتنا عظیم الشان تنوع اور جمالیاتی طلسم کدہ ہو ؟
آیت کے آخر میں اللہ سبحانہ و تعالی یہ فرما رہے ہیں کہ دیکھو میاں اپنی قومیت پر اترانا نہیں۔ یہ بس تعارف کے لئے ہے۔ تمہاری عظمت تمہارے قبیلے سے نہیں عمل سے ثابت ہوگی۔ تم میں سے وہی عظیم ہے جو خدا سے قربت کو پیش نظر رکھے۔