اس ہفتے میں خواتین کے خلاف جرائم کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے ،گذشتہ ہفتے حیدرآباد میں چار بچوں کی والدہ ، قراۃ العین کو اس کے شوہر نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناکرہلاک کردیا۔معاشرے میں اس طرح کے واقعات بہت عام ہیں اور اکثر پر تشدد اور جارحیت پسند مردوں کی طرف سے اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جبکہ قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھاکر ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔
پوسٹ مارٹم کی ایک رپورٹ میں مقتولہ کے جسم میں خوفناک زخموں اور چوٹوں کاانکشاف ہوا ہے۔اس جوڑے کے درمیان لڑائی جھگڑا رہتا تھا جبکہ ان کے پڑوسی بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں تاہم مقتولہ کے شوہر کی جانب سے معاملے کو الجھاکر قانون سے بچنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن معاملہ سوشل میڈیا پر اجاگر ہونے کے بعد انتہائی سنجیدہ رخ اختیار کرگیا ہے۔
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف سیون فور میں پاکستان کے سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے اورکوہسار تھانہ پولیس نے ملک کے مشہور و معروف بزنس مین ظاہر جعفر کو پاکستانی ڈپلومیٹ کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم نے نور مقدم کو قتل کرنے کےبعد تیز دھار آلے سے مقتولہ سر تن سے جدا کردیا ہے۔ نور مقدم سابق ڈپلومیٹ جاوید مقدم کی صاحبزادی تھیں۔ جاوید مقدم پاکستان کی جانب سے ساؤتھ کوریا اور قازقستان میں سفیر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
یہ دو واقعات نہیں بلکہ اس طرح کی دیگر کئی واقعات تسلسل کے ساتھ ملک میں رونما ہورہے ہیں ، ملک میں خواتین کے خلاف تشدد اور بڑھ گیا ہے لیکن گھریلو تشدد کا بل پارلیمنٹ سے مسترد ہونے کی وجہ سے متاثرین تشدد کرنیوالوں کیخلاف قانونی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔جو لوگ پولیس سے مدد لینے اور رابطہ کرنے کا انتظام کرتے ہیں ان کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
حال ہی میں اسلام آباد میں قائم ایک صنف تحفظ یونٹ کو صرف ایک ماہ کے دوران خواتین کیساتھ مظالم کے حوالے سے 131 سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں جن میں زیادہ تر جنسی ہراسانی کے بارے میں ہیں۔ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عدالتی نظام میں ایک مناسب قانون متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔