اتحادی حکومت میں دراڑیں

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیانے کہہ گئے ہیں کہ اگر کوئی مشترکہ دشمن پیدا ہوجائے تو اختلاف کرنے والوں کا ایک چھتری تلے متحد ہونا بڑا آسان کام ثابت ہوتا ہے تاہم اس دشمن سے مقابلے کا مقصد ختم ہوجائے تو دیگر عوامل سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔

مثال کے طور پر مادی و مالیاتی اور بااثر فیصلے کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اگر فیصلے غلط ہونے لگیں تو غیر فطری اتحاد کسی بھی وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی عمران خان کے ساتھ ہوا اور کچھ ایسا ہی شاید اب ہونے والا ہے۔

موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی مخلوط حکومت کے سربراہ بن کر مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کا گروہ حکومت میں بمشکل 3 ماہ گزرنے کے بعد اتحادی حکومت سے الگ نظریات پر چلتا نظر آتا ہے۔ ایسے ہی محرکات کے باعث پارٹیوں کے اندر بھی تقسیم در تقسیم ہوسکتی ہے اور فارورڈ بلاک بن جایا کرتے ہیں۔

مخلوط حکومت نے بھی ایک ایسے ہی وقت بجٹ منظور کرنے جیسا اہم اقدام اٹھایا جب ملک سنگین معاشی حالات کا شکار تھا۔ اتحادی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)، بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کے آزاد امیدوار اسلم بھوتانی پہلے ہی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔  ایم کیو ایم نے تو اپنے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتحاد سے نکلنے کی دھمکی تک دے ڈالی۔

پنجاب میں کئی حلقوں کیلئے جلد ہونے والے ضمنی انتخابات اتحادی حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ کرسکتے ہیں کیونکہ مخلوط حکومت کی قائد ن لیگ کو ٹکٹس کی تقسیم کا مشکل فیصلہ بھی کرنا ہوگا جس میں دیگر جماعتوں کے اراکین کو اتحاد میں شامل ہونے پر انعام دینا، پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو ساتھ ملانا یا پھر اپنے دیرینہ وفاداروں کو نوازنا شامل ہے۔

اس مقام پر ن لیگ کو اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کیلئے احتیاط اور بردباری جبکہ پیپلز پارٹی کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔  پیر کے روز بھی قومی اسمبلی میں تقاریر کے دوران تقریباً تمام ہی اتحادیوں نے ن لیگ کا رویہ تبدیل ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور وعدہ خلافی کا الزام بھی عائد کیا۔ موجودہ قیادت کو یاد رکھنا ہوگا کہ یہ اتحادی ہی تھے جو پیچھے ہٹ گئے تو عمران خان کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت تحریکِ عدم اعتماد کا شکار ہو کر ختم ہوگئی تھی۔

پنجاب میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ کئی حلقوں میں ٹی ایل پی کی موجودگی، مذہبی ووٹوں سے محرومی اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینے کے معاملات ن لیگ کیلئے انتخابی جوے سے کم نہیں۔ ایسے میں عوام اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں، اس پر نظر رکھنا اتحادی حکومت کیلئے بے حد اہم ہوگیا ہے۔

Related Posts