پاکستان نے ایک حال ہی میں ایک ملین کورونا کیسزکے سنگین سنگ میل کو عبور کیا ہے اور اب تک 23000 سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
ملک میں کورونا کی چوتھی لہر کے درمیان صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے لیکن ہم اس وبائی امراض کے تباہ کن اثرات کے بارے میں ابھی سنجیدہ نہیں ہیں اور شہریوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے اور مئی کے بعد سے مثبت تناسب اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
کراچی میں ، مثبت کیسزکا تناسب 25 فیصد تک بڑھ گیا اور اسپتال ایک بار پھر بھر رہے ہیں اورحالات نے ایک بار پھر حکومت سندھ کو تمام کاروباری سرگرمیاں بند کرنے اور اسکولوں کو بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ ہماری لاپرواہی ہے تاہم ایس او پیز اور حفاظتی اقدامات کوابھی بھی نظرانداز کیا جارہا ہے۔ چہرے کے ماسک کا استعمال ، جو اب بہت سے ممالک میں عام ہوچکاہے ،پاکستان میں اب بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
ہم نے آزادکشمیر میں بڑے پیمانے پر انتخابی جلسوں کا مشاہدہ کیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جہاں حفاظتی انتظامات کا فقدان نظر آیا۔ایک ہفتہ طویل عید کی تعطیلات کے موقع پر سیاحوں نے شمالی علاقوں کا رخ کیا جہاں لوگوں کا بے پناہ رش دیکھنے میں آیا۔
پیٹرول اسٹیشنوں پر ٹریفک جام اور گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے مناظر نے سوشل میڈیا کو بھر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال کے باوجود لوگ اپنی جان کی قیمت پر تفریحی سرگرمیوں کے لئے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ گلیوں ، بازاروں ، مساجد اور شادیوں میں ہماری عدم توجہی کی وجہ سے عید کے بعد کیسزمیں اضافے کی توقع کی جارہی ہے۔
پاکستان میں ویکسی نیشن مہم ابھی بھی مطلوبہ سطح تک نہیں پہنچ سکی ، پاکستان میں صرف سات ملین لوگوں کو مکمل طور پر ویکسین دی جاسکی ہے اور پاکستان پربہت سارے ممالک کی جانب سے پابندی عائد ہیں،بہت سی غیر ملکی ایئر لائنز آپریٹنگ پروازوں سے گریزاں ہیں۔
سعودی عرب نے تقریباً ایک سال بعد عمرہ دوبارہ شروع کیا ہے لیکن پاکستانیوں کو براہ راست داخلے کی اجازت نہیں ہے ۔یہ واضح ہے کہ ہم کورونا کی تباہ کاریوں کی طرف جارہے ہیں اور اس کی ذمہ داری ہم سب پر ہی عائد ہوتی ہے اور اگر ہمیں مزید مشکلات سے بچنا ہے تو احتیاطی تدابیر پر لازمی عمل کرنا ہوگا۔