عدالت نے جے یو آئی (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمان کی گرفتاری کے لیے دی گئی درخواست پر فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف بغاوت کی کارروائی کے لیے دی گئی درخواست پر سماعت ہوئی جس کے بعد عدالت نے فریقین کو جواب طلبی کے نوٹس جاری کردئیے۔
یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ ختم ہو رہا ہے، حکومت 5 سال پورے کرے گی۔شیخ رشید احمد
درخواست گزار ندیم سرور ایڈووکیٹ سے عدالت نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سیاسی سرگرمیوں کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ عدالتوں کا یہ کام نہیں ہے کہ احتجاج اور دھرنے روکے۔
معزز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کے خلاف کارروائی حکومت کا استحقاق ہے۔ اگر حکومت مناسب سمجھے گی تو دھرنے کے خلاف خود ہی کارروائی کرے گی۔
ندیم سرور ایڈووکیٹ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی ریاست مخالف تقاریر سے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے۔ مولانا نے یہ بیان دیا ہے کہ حکومت مخالف احتجاج کے شرکاء وزیر اعظم ہاؤس جا کر عمران خان کو حراست میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو ریاست کے خلاف اکسانا بغاوت ہے۔استدعا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جائے۔
بعدازاں عدالت نے درخواست کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے مقدمے میں نامزد فریقین سے جواب طلبی کے نوٹس جاری کردئیے جن کے مطابق فریقین کو مقررہ تاریخ تک اپنے جواب داخل کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ روز درخواست گزار ندیم سرور ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ جے یو آئی (ف) سربراہ حکومت مخالف احتجاج اور آزادی مارچ کے دوران تقریریں کرتے ہوئے عوام کو بغاوت پر اُکسا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ میں مولانا فضل الرحمان کی گرفتاری کے لیے درخواست دائر