گزشتہ روز میانمار کی فوج نے بغاوت کردی اور آنگ سان سوچی سمیت جمہوری طریقے سے منتخب کردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ فوج نے ملک میں 1 سال کیلئے ہنگامی حالت نافذ کردی جس سے قبل فوج کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ برس کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔
میانمار فوج کے اِس اقدام سے ملک ایک بار پھر آمریت کے زیرِ انتظام آگیا ہے۔ سن 1962ء کے بعد سے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میانمار کی فوج نے کسی سول حکومت کے خلاف بغاوت کی ہو جو واضح طور پر ملکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ فوج نے آن سانگ سوچی کی این ایل ڈی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کیلئے ایک چوتھائی نشستیں بھی برقرار رکھیں۔ گزشتہ برس نومبر کے انتخابات کے دوران ریاست کی حمایت کرنے والی پارٹی کی کارکردگی بھی خراب رہی جبکہ لوگوں نے کورونا وائرس کا انکار کرتے ہوئے بھاری تعداد میں این ایل ڈی کو ووٹس دئیے۔
آمریت میانمار کیلئے کوئی نئی بات نہیں رہی کیونکہ 2011ء تک ملک پر مسلح افواج ہی حکومت کر رہی تھیں اور پھر آنگ سان سوچی کی قیادت میں ملک میں جمہوری اصلاحات لائی گئیں اور فوج کا اقتدار اختتام کو پہنچا۔ سن 1989ء سے لے کر 2010ء تک آنگ سان سوچی نے قید میں گزارے جس پر خاتون رہنما کو عالمی سطح پر جمہوریت کیلئے امید کی ایک کرن قرار دیا گیا۔ لیکن آنگ سان سوچی کی عالمی شہرت بری طرح متاثر ہوئی جب روہنگیا مسلمانوں پر برما کی فوج نے مظالم ڈھائے اور آنگ سان سوچی نے یہ ماننے تک سے انکار کردیا کہ کوئی ظلم ہوا ہے۔ اب وہ جس فوج کا دفاع کر رہی تھیں، اسی نے طاقت اور اقتدار کیلئے آنگ سان سوچی کو بے دخل کردیا اور انہیں فوج کی کوئی ہمدردی یا حمایت حاصل نہیں۔
امریکی صر جو بائیڈن نے دھمکی دی ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے خلاف فوج کے اس اقدام کے بعد وہ میانمار پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں گے۔ میانمار میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران جو بائیڈن کیلئے پہلا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ خطے میں چین کا اثر رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ میانمار میں تیل کے بیش بہا ذخائر موجود ہیں اور فوج کو چین کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ عالمی برادری میانمار کی فوج پر دباؤ ڈالنے کیلئے کون سی پابندیاں عائد کرے گی یا کیا اقدامات کرے گی۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ میانمار میں عوام نے 50 سال کا جبر و ستم سہا اور لاکھوں افراد غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ میانمار میں جمہوریت ختم ہوچکی ہے جس کی جلد بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بلاشبہ آنگ سان سوچی ملک میں بے حد مقبول رہنما ثابت ہوئی ہیں لیکن وہ جلد دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کرسکیں گی۔ فوج کی بغاوت چاہے کسی بھی ملک میں ہو اور اس کی چاہے کوئی بھی صورت یا مظہر منظرِ عام پر آئے، ہر ایک کو اس کی مذمت کرنی چاہئے۔ عالمی برادری کا اس مرحلے پر میانمار جیسے ملک کیلئے کردار بے حد اہم ہوچکا ہے جبکہ فوج نے جو اقدام اٹھایا ہے وہ ایک بڑی لاپرواہی قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے میانمار ایک بے حد خطرناک راستے پر چل پڑا ہے۔