ملکی معیشت کی زبوں حالی اور معاشرے کی بدحالی میں بدعنوانی سرفہرست ہے جس کی وجہ سیاسی مداخلت اور سیاستدانوں کے مفادات بھی ہیں جس سے آج پورا معاشرہ کرپشن کی لپیٹ میں آچکا ہے۔کرپشن کو ام الخبائث اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ کرپشن کی کوکھ سے بے بہا برائیاں جنم لیتی ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ انسداد کرپشن کے لئے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں مگر ان اداروں کے اندر بھی کرپشن سرایت کرچکی ہے جس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔
محکمہ خزانہ ہویا محکمہ خوراک، وائلڈ لائف اینڈ فشریز کا شعبہ ہو یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن، محکمہ داخلہ ہو یا ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ، آبپاشی، مائنز اینڈ منرلز، منصوبہ بندی و ترقیات، پاپولیشن ویلفیئر، محکمہ زراعت، مواصلات و تعمیرات، ماحولیات، سڑکوں کی تعمیر ہو یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان کا ہر شعبہ آج کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔
کرپشن اگر کسی شخص کی حد تک ہو تو اس کو روکنا شائد ممکن ہو کیونکہ ہر ملک میں کرپشن کی روک تھام کیلئے قوانین رائج ہوتے ہیں لیکن اگر پورا ماحول اور نظام بھی کرپشن میں ملوث ہوجائے تو اس کو پکڑنا یا روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے مروجہ قوانین اور معیارات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔
ملک میں ہر سرکاری کام میں بیوروکریسی میں مداخلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر بااثر شخص اہم عہدوں پر اپنے حامی افسران کی تعیناتی چاہتا ہے اور ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ تھانے کے ایس ایچ او سے لے کر کلیدی عہدوں پر ان کے اپنے لوگ تعینات ہوں تاکہ انہیں ہر قانون سے کھلواڑ کرنے کا موقع مل جائے اور قانون کی زد میں نہ آجائیں جبکہ بیوروکریسی کے سرکاری معاملات میں مداخلت کی اس حد تک چھوٹ مل جائے کہ سیاستدان کرپشن اور ظلم و بربریت کی جتنی بھی داستانیں رقم کریں لیکن انہیں روکنے والا کوئی نہ ہو۔
سیاسی نظام میں کرپشن کو دوام ملنے کی وجہ سے معاملات اتنے مخدوش ہوچکے ہیں کہ اب بیوروکریسی پر ٹھیکیداری نظام کا گمان ہوتا ہے۔ اہم عہدے پر تعیناتی سے پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ اس ڈی سی کو تعینات کرینگے تو یہ ہر ماہ اتنے پیسے دیگا اور سیکریٹری اتنے پیسے پہنچائےگا اور مختلف محکموں کے سربراہان کو تعینات کرنے کے بعد ٹھیکیداری نظام کے تحت ہر ماہ ٹھیکے کے مطابق کتنے پیسے حاصل ہوں گے۔
جب کرپشن تمام حدوں کو پار کرجائے تو میرٹ اور یکساں مواقع ملنے کا تصور خاک میں مل جاتا ہے اور آئین اور قانون کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ جب آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہو اور بیوروکریسی کو ٹھیکیداری نظام کی طرح چلانے کی کوشش کی جائے تو نظام تباہی اور بربادی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ماضی میں بیوروکریسی غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات ماننے سے انکار کردیا کرتی تھی اور افسران پوسٹ چھوڑ دیتے تھے لیکن اب ماحول اتنا آلودہ ہوچکا ہے کہ اب بیوروکریٹس کے پاس بھی ماحول کے مطابق ڈھل کر کرپشن کی اس دلدل میں دھنسنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔
ہر ذی شعور فرد انفرادی و اجتماعی طور پر جمہوریت کا حامی ہے لیکن پاکستان میں ایوب خان اور ضیاء الحق کے ادوار میں میرٹ پر تعیناتیاں ہوتی تھیں لیکن افسوس کہ جمہوری نظام میں میرٹ کا کوئی نام و نشان نہیں۔
بیوروکریسی بھی نظام کا حصہ ہے اور جب سیاسی نظام اس حد تک آلودہ ہوجائے کہ نہ قانون کی پاسداری ہو نہ آئین کا خوف تو بیوروکریسی بھی سیاسی چالوں کا حصہ بن کر کرپشن کو مزید دوام بخشنے کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ملک میں آئین اور قانون پر عمل ہو تو کرپشن کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں لیکن افسوس کہ اس حوالے سے اصلاحات کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکا۔
پوری دنیا اس وقت کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت کام کررہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی فائلوں کے انبار لگائے جاتے ہیں اور ازار بند کی طرح فائلوں کو بھی رسیاں باندھ کر پیش کردیا جاتا ہے کیونکہ اس نظام میں جہاں سب کرپشن میں ملوث ہوں وہاں کسی ایک پر انگلی اٹھانا ممکن نہیں ہوتا اس لئے بیوروکریسی بھی نہیں چاہتی کہ اصلاحات ہوں کیونکہ اگر نظام میں اصلاحات اور کمپیوٹرائزڈ سسٹم رائج ہوجائے تو بیوروکریسی کیلئے سیاستدانوں کیساتھ ملکر کرپشن کے مواقع کم ہوسکتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں نظام نہیں ہے بلکہ نظام تو موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا، اگر ہمیں چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے تو نظام پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا کیونکہ اگر ہم نیا نظام متعارف کرواتے ہیں تو پچھلے نظام جیسا حال ہوگا جس پر عمل نہ ہوسکا، کچھ ایسی صورتحال ہوگی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے۔
ہمارے بیوروکریٹس پر اتنا زیادہ دباؤ ڈال دیا جاتاہے کہ وہ ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتے ہیں ۔
بقول شاعر:
در بدر سرجھکائے پھرتا ہے
عارضی اقتدار کی خاطر
کتنا مجبور ہوکے جیتا ہے
آدمی اختیار کی خاطر
ماضی میں معاشرے کے محروم طبقات کو یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا جس کو ایک مخصوص مدت کے بعد ختم کرنا مقصود تھا لیکن آج بھی ملک میں کوٹہ سسٹم رائج ہے جسے ملک کے تمام علاقوں میں خاص طور پر سندھ میں مساواتی بنیاد پر تعلیمی نظام اور دیگر سہولیات کی فراہمی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہمارے بیوروکریٹس عدم تحفظ کی وجہ سے کبھی ایک سیاستدان کے پیچھے بھاگتے ہیں تو کبھی دوسرے کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے ہیں۔اگر نظام میں بہتری مقصود ہو تو بیوروکریسی کومقررہ مدت تک بے خوف کام کرنے کی یقین دہانی کروائی جائے ۔ اس طرح یقیناً کئی معاملات میں بہتری ممکن ہے۔بیوروکریٹس کو تعینانی کا تحفظ دینے کی ضرورت ہے اور انہیں بغیر کسی وجہ کے پوسٹ سے نہ ہٹانے کی یقین دہانی کروائی جائے تومعاملات میں یک جنبش قلم اور فوری بہتری ممکن ہے۔