کراچی پیکیج پر تنازعہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن ریلیف پیکیج پر تنازعہ پیدا ہوچکا ہے اور وفاق اور سندھ کے درمیان فنڈز کی فراہمی کا معاملہ بھی پیچیدہ ہوگیا ہے جبکہ اب وفاق کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو فنڈز نہیں دیئے جائینگے ، اس تمام صورتحال میں شہری پریشان ہیں کہ کیا واقعی اس پروگرام سے فائدہ اٹھائیں گے۔

وزیر اعظم نے کراچی کے لئے 11سوارب سے زائدکے پیکیج کا اعلان کیا تھا جس میں 50 کے قریب ترقیاتی منصوبے شامل ہیںاوراس سے ایک دن قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی 802 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا ۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھاکہ وہ توقع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اس منصوبے میں ان کی مدد کرینگے۔

سندھ اور وفاق کی طرف سے پیش کردہ بہت سے منصوبے پہلے ہی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حصہ تھے جبکہ ان میں سے بہت سے منصوبے قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں جیسے ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کی مدد سے تیارکیے جارہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈ میں کیا تعاون کیا گیا ہے اگر صوبائی حکومت اور قرض دہندگان کے درمیان معاون کا کردار ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرکز نے واقعتاًایک تاریخی پیکیج فراہم کیا ہے،اب تک سب سے بڑے سمجھے جانے والے ریلیف پیکیج پر شہری پہلے ہی حیران تھے لیکن اب شکوک و شبہات نے شہریوں کی حیرانی کو پریشانی میں بدل دیا ہے اور کراچی کے باسی سوال کررہے ہیں کہ کیا واقعی اس پیکیج پر عمل ہوسکے گا یا نہیں۔

وفاق نے پیکیج میں کم شراکت کی تردید کی ہے ،وفاقی وزیراسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکز پیکیج کی رقم کا دوتہائی حصہ دے گا جبکہ کچھ فنڈز دیگر ذرائع سے پیدا کئے جائینگےتاہم تفصیلات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے شکوک بڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آخر اس پروگرام پرعمل کیسے ہوگا، ایک رابطہ وعملدرآمدکمیٹی تشکیل دی گئی ہے اوراس کے سربراہ وزیر اعلیٰ ہونگے۔ مرکز نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی حکومت کو فنڈز نہیں دیئے جائیں گے کیونکہ وفاق کو سندھ حکومت پر بھروسہ نہیں ہے ،اس وجہ سے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں تو سندھ اور وفاق ملکر کام کیسے کرینگے۔

بلدیاتی حکومت تحلیل ہونے کے ساتھ ہی حکومت سندھ نے شہری انتظامیہ کی تقرری کے بعدصوبے کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیاہے۔ اگلے چند مہینوں تک جب تک مقامی سطح پر انتخابات منعقد نہیں ہوں گے یہ انتہائی اہم ہوگا اور اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سندھ حکومت کراچی کو کس طرح سنبھالتی ہےاوراس وقت کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں شدت آچکی ہے اور آئندہ دنوں میں مزید اضافہ ممکن ہے۔

Related Posts