حکومت پاکستان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں مزید ترمیم کرنے کا بل منظورکروانے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے تنازعات اور تحفظات سامنے آئے ہیں۔
بل کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کیلئے الیکشن کمیشن نادرا اور دیگر اداروں کی تکنیکی معاونت حاصل کرسکے گا۔
اپوزیشن جماعتوں نے جہاں اس بل پر اعتراضات اٹھاکرعدالت جانے کا اعلان کیا ہے وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ای ووٹنگ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے قبل 14مراحل سے گزارنے کا عندیہ دیاہے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ای وی ایم کے استعمال میں کئی چیلنجز درپیش ہیں،ای وی ایم کے استعمال سے متعلق مزید 3 سے 4 پائلٹ پراجیکٹ کرنا پڑیں گے، ایک پولنگ اسٹیشن پر کتنی مشینیں ہونگی یہ فگر آؤٹ کرنا باقی ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سے پہلے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر 37 اعتراضات اٹھا ئے تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئین کے مطابق آزادانہ، شفاف اور قابل اعتماد انتخابات نہیں ہو سکتے جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جو 18ماہ تک پڑی رہی اوراس پرکوئی غورنہیں کیاگیا،الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے دونوں ایوانوں کوخطوط بھی بھیجے تھے۔
حکومت کو نئے نظام سے قبل یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ گزشتہ عام انتخابات 2018 میں تقریباً 20 سے 25 ارب کے اخراجات ہوئے ،2013 کے عام انتخابات میں 4 ارب 73 کروڑ اور2008 میں ہونے والے عام انتخابات پر ایک ارب 84 کروڑ روپے کے اخراجات آئے تھےتاہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے 150 ارب سے زائد اخراجات متوقع ہیں۔
ایک مشین کا خرچہ 2 لاکھ روپے ہے اور اس کیلئے 2 سے3 لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی ، 2023کے انتخابات کیلئے8لاکھ مشینیں منگوانا پڑیں گی،مشین پر غلط ووٹ کاسٹ ہونے پر دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت نہیں ملے گی، مشینوں کو باحفاظت پہنچانا اور واپس لانا بڑا چیلنج ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہر جگہ پہنچانے کیلئےٹرانسپورٹیشن چارجز الگ آئیں گے۔
ای وی ایم کے ہر بوتھ پر استعمال کیلئے الگ مین پاور کی ضرورت ہو گی،ہر پولنگ بوتھ پر پریذائیڈنگ افسران اور اسٹاف کو مکمل ٹرینڈ کرنا مشکل مرحلہ ہے،ہر پولنگ اسٹیشن پر 2 سے 3 آئی ٹی کے افراد تعینات کرنا ہونگے۔
گزشتہ الیکشن میں 86 ہزار پولنگ اسٹیشن بنے، آئندہ الیکشن میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن ہونے کا امکان ہے جس کیلئے کم سے کم 2 سے تین لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی، گزشتہ الیکشن میں پولنگ بوتھ 2 لاکھ 40 ہزار تھے جبکہ آئندہ الیکشن میں 3 لاکھ ہونے کا امکان ہے۔ ہر پولنگ بوتھ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کیلئے الگ الگ مشین رکھنا پڑے گی۔
انتخابات میں تقریباً آدھے حلقوں میں 20 سے زیادہ امیدوار سامنے آتے، کسی حلقے میں 20 سے زیادہ امیدوارہونے کی صورت میں ایک الگ مشین رکھنا پڑے گی، ایسی صورت میں کم سے کم ایک لاکھ اضافی مشینیں خریدنا پڑیں گی۔
مشینوں کے اچانک خراب ہونے کے خطرے کے پیش نظر ایک لاکھ مزید مشینیں لینا ہوں گی، یوں مجموعی طور پرتقریباً 8 لاکھ مشینیں خریدنا ہوں گی، ای وی ایم کے استعمال کیلئےلمبے عرصے تک بڑی تعداد میں افراد کو ٹریننگ کی ضرورت ہو گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظورہ کردہ قانون حرف آخر نہیں ہے ، اپوزیشن اور دیگر فریقین کے پاس کوئی اعتراض ہے تو وہ سامنے لائے تاکہ اس کو دور کیا جاسکے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سنجیدہ حلقوں کی طرف سے ای وی ایم کے حوالے سے اہم سوالات سامنے آئے ہیں جن پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات کئی شہروں میں بھی مکمل طور پر دستیاب نہیں ہے اور دور دراز گاؤں دیہاتوں میں تو انٹرنیٹ کا تصور بھی محال ہے وہاں ای وی ایم کا استعمال کیسے ممکن ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ ای وی ایم کے استعمال سے قبل تمام سوالات اور خدشات کا جائزہ لے تاکہ کسی بھی کمزوری یا خامی کی وجہ سے ای وی ایم کا قانون تنازعات کی بھینٹ نہ چڑھ سکے۔