انسان ایک سماجی جاندار ہی نہیں بلکہ باشعور ہستی بھی ہے۔ چنانچہ یہ اس کے شعور کا فیصلہ تھا کہ جب رہن سہن مشترک ہے تو پھر اس کے لئے کچھ اصول بھی ہونے چاہئیں۔ ایسے اصول جو پرامن بقائے باہمی کی ضمانت بن سکیں۔ معاشرے میں انتشار نہ ہو اور سب ان اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ یوں علم کی مدد سے عمرانیات کو وجود ملا۔
گھروں کی صورت پہلے سے موجود حدود کا تصور وسیع ہوا تو تحصیل، اضلاع، ڈویژن، صوبے اور ممالک کی صورت بڑی حد بندیاں بھی قائم ہوگئیں۔ آئین اور ان کے تحت قوانین وجود میں آگئے اور طے پایا کہ انہی کے ذریعے حقوق کا تعین اور انہی کے توسط سے حقوق کا دفاع بھی ہوگا۔ کوئی تنازعہ پیدا ہوگا تو عدالت کے ذریعے اس کا فیصلہ ہوگا اور یہ فیصلے سب کو قبول کرنے ہوں گے۔ پھر سوال پیدا ہوا کہ جب زمین پر جغرافیائی لکیریں کھنچ گئیں۔ تو اب ممالک کے بھی تو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات چلیں گے۔ ان کا کیا بنے گا ؟ یوں عالمی قوانین اور عالمی ادارے وجود میں آگئے۔ یہ ایک طویل سفر ہے جو حضرت انسان نے ہزاروں سال میں طے کیا ہے۔ ارتقاء نت نئے مسائل مستقل پیدا کر رہا ہے، چنانچہ انسان آئینی ترامیم اور نئی قانون سازی کے ذریعے ان کا بھی حل نکال رہا ہے۔
رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں: