بار بارتعلیمی اداروں کی بندش، اگلی جماعتوں میں پروموشن، طلبہ کا مستقل کیا ہوگا ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Closure of schools, direct promotions: Will will be the future of students?

پاکستان میں کچھ عرصہ قبل سیاسی رہنماؤں کی جعلی ڈگریوں کے اسکینڈلز سامنے آنے کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ڈگری کے حوالے سے بیان دیا کہ ڈگری تو ڈگری ہے اصلی ہویا جعلی اور ان کا یہ بیان آج پاکستان میں سچ ہوتا دکھا دے رہا ہے۔

پاکستان میں جاری کورونا وائرس کی پہلی، دوسری، تیسری اور پھر چوتھی لہر نے جہاں عوام کے معمولات زندگی اور کاروبار کو متاثر کیا وہیں تعلیم کو بھی ایک معمہ بنادیاہے۔ پاکستان میں مارچ 2020ء میں پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند ہوئے اور یہ سلسلہ ڈیڑھ سال بعدبھی جاری ہے ۔ حکومت نے حالات کے پیش نظر ایک بار پھر طلبہ کو اگلی جماعتوں میں پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ آخر بار بار پروموشن کایہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟ طلبہ کا مستقبل کیا ہوگا؟

تعلیمی اداروں کی بندش
پاکستان میں کورونا کی آمد کے بعد سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند ہوئے اور آج تقریباً تمام معمولات بحال ہونے کے بعد ملک میں تعلیم کا سلسلہ مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکا اور جہاں تعلیمی ادارے کھلے ہیں وہاں 50 فیصد حاضری ہے جبکہ حکومت نے 18اضلاع میں پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ این سی اوسی کے سربراہ اور وفاقی وزیر اسدعمر کا کہنا ہے کہ ہم نے 24اضلاع میں 4ستمبر کوکچھ بندشیں لگائی تھیں، 18اضلاع میں بہتری نظر آرہی ہے۔کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے 6اضلاع میں انتہا درجے کی بندشیں قائم رہیں گی ۔

آن لائن تعلیم
آج دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے اور جہاں دوریاں سمٹ چکی ہیں وہیں انٹرنیٹ پر سیکھنے والوں کیلئے بھی ہر طرح کا مواد موجود ہے اور پاکستان میں کورونا کی لہر کے بعد ملک میں آن لائن تعلیمی نظام فعال بنایا گیا تاہم اس کے بھی کئی مضر اثرات رونما ہوئے۔

کئی بچوں کو مسلسل فون استعمال کرنے کی وجہ سے ذہنی امراض کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ آن لائن نظام میٹرک یا اس سے بڑی کلاسز کیلئے تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن چھوٹی کلاسز کے بچوں کیلئے آن لائن کلاسز کسی صورت قابل تقلید نہیں ہیں۔

آج ہر شعبہ سے وابستہ لوگ اپنی مشکل کا حل انٹرنیٹ سے تلاش کرلیتے ہیں لیکن اس کیلئے آپ کو کچھ آنا چاہیے اور جوناسمجھ آئے آپ وہ آن لائن سیکھ سکتے ہیں ۔ایسا نہیں کہ آپ کو انٹر نیٹ کا استعمال یا فون چلانا نہ آتا ہو تب بھی آپ آن لائن تعلیم حاصل کریں۔

یہ کیسے ممکن ہے؟ جبکہ چھوٹے بچوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی چاہیے جو اسکول جاکر ہی مل سکتی ہے۔ ایسے میں چھوٹی کلاسز کے بچوں کو آن لائن تعلیم کے نام پر والدین سے فیس لینے کی حدتک تو اقدام درست ہے لیکن سیکھنے اور سکھانے کیلئے درس گاہ ہی ضروری ہے۔

طلبہ کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ
وفاقی حکومت نے دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو پاس کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے،وفاقی وزیر برائے تعلیم وفنی تربیت شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس منعقد کی گئی۔ذرائع کے مطابق حکومت نے 10 ویں اور12 ویں جماعت کے تمام طلبہ کو پاس کرنے کا فیصلہ کرلیا۔فیل ہونے والے طلبہ کو رعایتی 33 نمبر دے کر پاس کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق وزرائے تعلیم نےفیصلہ کیا کہ کورونا کے باعث دوبارہ فوری امتحانات ممکن نہیں لہٰذا میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سال میں دوبارہوں گے۔ذرائع نے بتایا کہ وزرائے تعلیم نے فیصلہ کیا کہ امتحانات کو سپلیمنٹری امتحانات کا نام نہیں دیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سال میٹرک امتحانات مئی اور جون میں ہوں گے جبکہ نیا سیشن اگست سے شروع ہوگا۔

تعلیم اورڈگری
امیر اور غریب دونوں کیلئے تعلیم کی اہمیت یکساں طور پر مسلم ہے۔ مرد اور عورت دونوں پر علم کا حصول فرض قرار دیا گیا ہے اوریہ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے جو ایک بار حاصل ہونے کے بعد چھینا نہیں جاسکتا۔ یہ وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوار دیتا ہے۔

تعلیم کا اولین مقصد انسان ی ذہنی و روحانی نشوونما ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو مٹاتی ہے۔ یہ صرف ڈگری کے حصول کا نام نہیں بلکہ ڈگریاں صرف یقین دہانی کیلئے ہوتی ہیں۔ انسان ہر جگہ اپنی قابلیت اور حاصل کی گئی تعلیم خود ظاہر کرتا ہے۔ اگر تعلیم ہی نہیں دی جارہی تو ڈگریاں دینے کا کوئی مقصد یا فائدہ نہیں۔

طلبہ کا مستقل کیا ہوگا
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے بار بار تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے گزشتہ سال بھی طلبہ کو اگلی جماعتوں میں پروموٹ کیا گیا جبکہ امسال وفاق اور صوبوں نے نااتفاقی کے باوجود پہلے اسکول کھولے اور بعد میں بند کردیئے اور امسال طلبہ کو پروموٹ کرنے کے بجائے ہر صورت امتحان لینے کا اعلان کیا تھا اور اب ایک بار پھر ان کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کورونا ایک حقیقت ہے تو تعلیم کی اہمیت بھی مسلمہ ہے لیکن وباء کی آڑ میں تعلیم تباہ کرنے کے اقدامات کسی صورت طلبہ کے مستقبل کیلئے سود مند نہیں ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے تعلیمی سلسلہ جزوی طور پر جاری ہے اور باربار بندش اور آن لائن نظام میں باقاعدہ پڑھائی اور حصول علم ممکن نہیں ہے اس لئے حکومت بار بار پروموٹ کرنے کے اعلانات کرتی رہی ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر صرف ڈگری ہی دینی ہے تو اتنی تگ و دو کیوں؟ آپ ویسے ہی سب کو ڈگریاں بانٹ دیں کیونکہ 2020 اور 2021 میں پروموٹ کئے جانے والے طلبہ کل جب کہیں اعلیٰ تعلیم یا نوکری کیلئے جائینگے تو ان کی ڈگریوں کو اہمیت نہیں دی جائیگی۔

خاص طور پر تعلیم کی بنیاد پر روزگار حاصل کرنے والے افراد کیلئے زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوجائے گا۔ ملک بھر میں بے روزگاری پہلے ہی بہت زیادہ ہے جس میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔ حکومت کا طلبہ کو بار بار پروموٹ کرنے کا اقدام طلبہ کے مستقبل کو حقیقت میں تباہ کرسکتا ہے جس کے اثرات بہت تباہ کن ثابت ہوں گے۔

Related Posts