لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کی بندش درآمد کنندگان کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل میں اضافہ کر رہی ہے، جس سے انہیں مالی نقصان ہو رہا ہے اور اس خدشے نے بھی جنم لیا ہے کہ دنیا بھر کی شپنگ کمپنیاں پاکستان کیلئے کہیں کام کرنا ہی بند نہ کردیں۔
ایل سیز کھولنے میں تاخیر کی وجہ سے حراستی چارجز، ڈیمریج، صنعتی پیداوار کے لیے خام مال کی قلت، بڑے صنعتی یونٹس کی بندش، زرعی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ، مشینری اور آلات کے اسپیئر پارٹس کی عدم دستیابی کے باعث پلانٹس کی بندش، برآمدی آرڈرز کی عدم تکمیل، پیداوار میں کمی اور چھانٹیوں کی وجہ سے محصولات کا نقصان الگ ہورہا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لیٹرز آف کریڈٹ ( ایل سیز) کے بیک لاگ کو کلیئر کرنے کے لیے مشترکہ کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔
اس معاملے نے نقد رقم سے محروم پاکستان کے تاجروں میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے بھی لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سی) نہ کھلنے کی وجہ سے درآمد کنندگان کو درپیش مسائل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بدھ کو ہونے والے اجلاس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ ایل سی کلیئر نہ ہونے سے تاجر برادری خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نقصان ہو رہا ہے جس کی وجہ سے صنعتی یونٹس کی زبردستی بندش اور بے روزگاری نے جنم لیا۔
اجلاس کی صدارت کے دوران سینیٹر ذیشان خانزادہ نے وزیر تجارت کی عدم شرکت پر تشویش کا اظہار کیا۔ سینیٹر دنیش کمار نے ان کی غیر حاضری کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پچھلی حکومت کے دوران ہمارے وہی دوست کہتے تھے کہ پی ٹی آئی کے وزراء کمیٹی میں نہیں آتے لیکن اب جب وہ اقتدار میں ہیں تو خود بھی اجلاس میں آنے کی زحمت نہیں کرتے۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے کیونکہ اگر شپنگ کمپنیاں کنٹینرز کی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن کا بائیکاٹ کردیں تو لیٹر آف کریڈٹ کا بیک لاگ پاکستان کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے اور ایل سیز کی بروقت کلیئرنس کو یقینی بنائے۔
ملک کے موجودہ زرِ مبادلہ ذخائر بے حد کم ہیں۔ 4 اعشاریہ 2 ارب ڈالرز کے ذخائر سے ملک 2 سے 3 ہفتوں تک مزید درآمدات کا متحمل ہوسکتا ہے جس میں اضافہ انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔