پی ڈی ایم حکومت کے ایک سال کے دوران پاکستان کی معیشت کو اہم چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ملک اپنی 75 سالہ تاریخ میں مہنگائی کی بلند ترین شرح کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ہی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
اس تشویشناک رجحان نے عوام اور پالیسی سازوں میں یکساں طور پر تشویش پیدا کردی ہے، اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ایک حالیہ پیش رفت جس نے خدشات میں اضافہ کیا ہے وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا 8 بڑے اداروں بشمول اوگرا، نیپرا اور پی ٹی سی ایل کا آڈٹ کرنے کا حکم ہے۔
پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ وفاقی وزارت آئی ٹی اور پی ٹی سی ایل آڈٹ سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے ان اداروں کی شفافیت اور جوابدہی کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔
قومی اداروں کی طرف سے آڈٹ سے گریز کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک ممکنہ وجہ ان اداروں کے اندر مالی بدانتظامی یا بدعنوانی کے سامنے آنے کا خوف ہے۔ آڈٹ کے عمل کو مالیاتی لین دین میں کسی بھی بے ضابطگی یا تضادات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے، اور وہ ادارے جن کے پاس چھپانے کے لیے بہت کچھ ہوا کرتا ہے، وہ احتساب سے بچنے کے لیے آڈٹ سے بچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
ایک اور وجہ ان اداروں کے اندر مناسب مالیاتی ریکارڈ رکھنے اور دستاویزات کا فقدان ہو سکتا ہے۔ مالیاتی انتظام کے ناقص طریق کار آڈٹ سے گزرنا مشکل بنا سکتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اپنے مالیاتی لین دین کا درست اور مکمل ریکارڈ نہ ہو، جس سے آڈٹ کی جانچ پڑتال کو پاس کرنا مشکل ہو جائے۔
معاشی بحران صرف اداروں کے اندر مالی بدانتظامی تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں کاروبار کی مجموعی صورتحال بھی مایوس کن رہی ہے، گزشتہ نو ماہ میں کاروں کی فروخت میں 46 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ آٹوموٹیو انڈسٹری کے لیے ایک اہم دھچکا ہے اور صارفین کی طلب میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا معیشت کے دیگر شعبوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔
گندم کی سپلائی بند ہونے سے معیشت پر بھی شدید اثر پڑا ہے، 50 فیصد سے زائد ملیں بند ہوگئیں جس سے زرعی شعبہ بدحالی کا شکار ہے، جو تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان ایک زرعی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا، زراعت اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی جبکہ موجودہ صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ہم اربوں ڈالرز کی زرعی درآمدات کرتے ہوئے وہ فصلیں اور اجناس منگوا رہے ہیں جو زراعت کے شعبے پر تھوڑی سی توجہ دینے سے ہمارے ہی ملک میں پیدا ہوسکتی تھیں۔
بد ترین مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو فوری اور جرأت مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ تمام قومی اداروں کے اندر شفافیت، احتساب اور اچھے نظم و نسق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے تمام اداروں میں درست ریکارڈ رکھنے اور دستاویزات سمیت مالیاتی انتظام کے مناسب طریقوں کو نافذ کیا جانا چاہیے۔
یہی نہیں بلکہ کاروبار اور زراعت کے شعبوں کی بحالی کے لیے کوششیں کی جائیں۔ صارفین کی مانگ کو تیز کرنے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے اور سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی جانی چاہئیں۔ زرعی شعبے کو قرض تک رسائی فراہم کرنے، کاشتکاری کے طریقوں کو جدید بنانے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کے ذریعے بھی تعاون بڑھایا جانا چاہیے۔
آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور پالیسیوں کے مؤثر نفاذ سے پاکستان اپنے مالیاتی بحران پر قابو پا سکتا ہے اور مزید مستحکم اور خوشحال معیشت کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔