حق دفاع یا نسل کشی کا سرٹیفکیٹ؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے برسوں سے جاری اسرائیلی مظالم کا غیر متوقع اور سخت ردعمل دینے کے بعد سے سفاک صہیونی بھیڑیے کو اہل غزہ پر قیامت برپا کرنے کا بہانہ ہاتھ آیا ہے۔

چنانچہ حماس کے رد عمل (جی ہاں یہ اسرائیل کے لامتناہی ظلم و ستم کا ردعمل ہی ہے) کو بنیاد بنا کر وہ اپنے عالمی سرپرستوں کی مکمل تائید اور پشت پناہی سے رات دن، صبح، دوپہر، شام بلا توقف تسلسل کے ساتھ غزہ پر آتش و آہن کی برسات جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکا کا بے شرم اور مکار بڈھا صدر نہایت ڈھٹائی اور بے رحمی سے یہ کہہ کر اسرائیل کی اس سفاکیت اور چنگیزیت کو جواز بخش رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ بائیڈن نہ صرف خود تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر غزہ میں جارح اسرائیل کی جانب سے انسانیت کے خلاف جاری بدترین جرائم کی حمایت کر رہا ہے بلکہ اس نے خصوصی دلچسپی لیکر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کی تائید میں اپنے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو بھی میدان میں اتار دیا ہے اور امن و انسانیت کے یہ سارے علمبردار مل کر انتہائی سفاکی کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر کورس میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اسرائیل کے ”حق دفاع“ کا گیت گا رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسا دفاع ہے جس کی مار بے گناہ، نہتے اور غیر متحارب عام شہری اور ان کے معصوم بچے سہہ رہے ہیں، کیا شفا خانوں میں انکیوبیٹر میں سانس لینے والے نو زائید فلسطینی بچوں کا نہایت بے رحمانہ قتل بھی اسرائیل کا حق دفاع ہے؟ کیا اسرائیل اور اس کے انسانیت سے عاری سرپرستوں نے فرعون کی طرح ہر فلسطینی اور عرب بچے کو دہشت گرد اور حملہ آور ڈیکلیئر کردیا ہے؟

اسرائیل اور اس کے بے ضمیر سرپرستوں کا جھوٹا، منافقانہ، بے شرمانہ اور انسانیت سے عاری بیانیہ اس قدر بودا، کمزور اور بوگس ہے کہ آخرکار اقوام متحدہ جیسے بے حس ادارے کے سربراہ کو بھی چیخ کر بتانا پڑا ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں عالمی قوانین کے منافی ہیں، اگرچہ یہ تلخ حقیقت بیان کرنے کے بعد اسرائیل نے بے چارے گوتریس کو اپنی بات واپس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔
امریکا کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ سات سمندر پار بیٹھ کر اس کا بڈھا صدر اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکنے کیلئے خود کو چوبیس گھنٹے وقف کیے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے منصب کے تمام تقاضے اور فرائض بھول کر اسرائیل کی طرف سے مذاکرات کار، وکیل صفائی، ترجمان، سیکرٹری اور سہولت کار تک کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پستی کی اس حد پر آکر امریکی صدر اسرائیلی بمباری بند کروانے کی نحیف سی عالمی کوششوں کو ٹھکراتے یہ کہتے ہوئے بھی نہیں شرما رہا کہ حماس جب تک تمام یرغمالیوں کو غیر مشروط طور پر رہا نہیں کرے گی، حملے نہیں رکیں گے۔

اپنے اس سفاکانہ بیانئے کے ذریعے امریکی صدر نے اپنا انسانیت دشمن اور اسلام دشمن چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی آشکار کر دیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا میں موجود طاقتور یہودی لابی کے سامنے اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اسرائیل جو چاہتا ہے امریکی صدر (خواہ منصب پر کوئی بھی ہو) اس کی تائید میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔

امریکا کی اعلیٰ درجے کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ فلسطینی بچوں کے قتل عام میں اسرائیل کی حمایت کے باوجود اسے یہ بھی فکر ہے کہ غزہ میں اس کے لے پالک کی لگائی ہوئی آگ بڑھ کر خطے میں موجود اس کے مفادات، فوجی تنصیبات، اڈوں اور مراکز کی دہلیز تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر امریکا کو اپنے مفادات کی اتنی ہی فکر ہے تو اسے اسرائیل کی اس وحشیت کا ہاتھ روکنا ہوگا، ورنہ محض یہ کہنے سے کہ امریکا جنگ کا دائرہ نہیں بڑھانا چاہتا، جنگ کی آگ کا دائرہ پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا اور معاملات بہت دور تک جا سکتے ہیں، جس کا انجام انسانیت کی مزید تباہی اور نئے سنگین المیوں کی صورت ہی برآمد ہوگا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کو منافقت کا نقاب خود اتار پھینکنا ہوگا اور واضح کرنا ہوگا کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل کے چاروں طرف پورے خطے میں کوئی ایک بھی ملک اور قوم ایسی نہیں جو ”حق دفاع“ کے نام پر اسرائیل کی سفاکیت، بہیمیت، بچوں اور خواتین کے قتل عام اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے محضر نامے پر مہر تائید ثبت کرے۔

عرب اقوام ہی نہیں، پوری مسلم دنیا اور ساری آباد دنیا کے تمام مسلمان بہ یک زبان اسرائیل کو غاصب، دہشت گرد، جارح، قابض اور قاتل مانتے ہیں، ایسے میں جنگ کا دائرہ نہ بڑھانے کی طفل تسلیوں سے کام نہیں چلے گا، ”جنگ“ کا دائرہ بڑھانا تو دور، امریکا کو اپنے لے پالک کی طرف سے اہل غزہ کا یکطرفہ قتل عام فوری بند کروانا ہوگا، ورنہ امریکا کے نہ چاہنے کے باوجود یہ آگ پھیل سکتی ہے اور اس کی لپیٹ میں پورا خطہ امریکی مفادات سمیت آسکتا ہے۔

حق دفاع کے نام پر اسرائیل کو اہل غزہ کی نسل کشی کا سرٹیفکیٹ دینا بد ترین انسانیت دشمنی اور فلسطینی بچوں کے قتل عام کی سند دینا ہے۔ یہ قتل نا حق جاری رکھ کر ارد گرد کے مسلمانوں کو زیادہ دیر تک لا تعلق رہنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ رد عمل کی چنگاری کہیں سے بھی بھڑک اٹھی تو غم و غصے کے بارود کے ڈھیر پر کھڑے مشرق وسطی کو تباہی کی آگ کا گولہ بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ اور اس کے حواریوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس دے کر دنیا کو بہت بڑی تباہی سے دوچار کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت فلسطین کے پڑوسی عرب عوام ہی نہیں، پوری مسلم دنیا شدید کرب اور اذیت سے گزر رہی ہے۔ عالم اسلام میں حکومتوں کی سطح پر اگرچہ غزہ کی قیامت پر قبرستان کا سکوت چھایا ہوا ہے مگر حکمرانوں کے سکوتِ بے حمیتی کے اندر مسلم عوام میں شدید بے چینی کا طوفان چھپا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران اپنی ہی قوموں کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے بے حمیتی کے سکوت کی چادر اتار پھینکیں اور اہل غزہ کو اسرائیل کی جارحیت سے بچانے کیلئے کردار ادا کریں۔

Related Posts