کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے بانس سے انقلابی کرکٹ بیٹ تیار کرلیا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے بانس سے انقلابی کرکٹ بیٹ تیار کرلیا
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے بانس سے انقلابی کرکٹ بیٹ تیار کرلیا

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کیمبرج: تقریباً 200 سال سے کرکٹ بیٹ کی تیاری میں بید کی لکڑی استعمال کی جارہی ہے جو ایک معیار کا درجہ رکھتی ہے۔ تاہم برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روایتی طور پر بید کی جگہ بانس سے کرکٹ بیٹ بنایا جائے تو وہ نہ صرف کم خرچ بلکہ کئی لحاظ سے بہتر بھی ہوگا۔

کرکٹ کا شوق رکھنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جہاں کرکٹ سے متعلق بہت ساری چیزوں نے ترقی کرلی ہے، وہیں کرکٹ بیٹ کو بھی خوب سے خوب تر بنانے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں ’’سینٹر فار نیچرل مٹیریل انوویشن‘‘ کے انجینیئرز درشیل شاہ، بین ٹنکلر اور مائیکل ریمیج نے بانس سے کرکٹ بیٹ تیار کیا ہے جو بید کے روایتی کرکٹ بیٹ کے مقابلے میں نہ صرف ہلکا، ماحول دوست اور پائیدار ہے بلکہ کم خرچ بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بانس سے بنا یہ بیٹ غریب ممالک میں کرکٹ کے فروغ میں بہتری لا سکے گا۔

بانس والے کرکٹ بیٹ کی تیاری کے بعد کیمبرج یونیورسٹی کے انجینیئرز نے بیٹ کی مضبوطی جانچے کے لیے خردبینی تجزیئے، ویڈیو کیپچر ٹیکنالوجی، کمپیوٹر ماڈلنگ، کمپریشن ٹیسٹنگ، سطح کی مضبوطی اور ارتعاشات (تھرتھراہٹوں) سے متعلق آزمائشوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

آن لائن تحقیقی جریدے ’’دی جرنل آف اسپورٹس انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بانس سے بنایا گیا کرکٹ بیٹ، بید والے کرکٹ بیٹ کے مقابلے میں دباؤ برداشت کرنے کی تین گنا زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔

انجینیئرز کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ہلکے پھلکے کرکٹ بیٹ سے ٹکرانے کے بعد گیند بھی زیادہ تیزی سے حرکت کرے گی، یعنی میچ کے دوران چوکوں اور چھکوں کا امکان بھی زیادہ ہوجائے گا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بانس والے کرکٹ بیٹ کا سویٹ اسپاٹ نہ صرف روایتی بیٹ کے مقابلے میں بڑا ہے بلکہ اس کی کارکردگی بھی بید کے کرکٹ بیٹ سے 19 فیصد زیادہ ہے۔

بانس کے پروٹوٹائپ بیٹ میں اہم ترین چیز اس کا ’’سویٹ اسپاٹ‘‘ ہے، جہاں سے ٹکرانے والی گیند سب سے زیادہ رفتار سے واپس پلٹتی ہے۔

یہ بیٹ ایجاد کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی دنیا میں یہ ایک انقلابی اضافہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن اس بات کا فیصلہ آئی سی سی اور دوسرے متعلقہ عالمی اداروں سے منظوری مل جانے کے بعد ہی کیا جاسکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: خود ساختہ صحافیوں نےعباسی شہید اسپتال کی انتظامیہ کو ظالم اور سنگدل قرار دے دیا

Related Posts