بریگزٹ ڈیل:بالآخربرطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوگیا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

UK leaves the European Union

47سال کے بعد برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا ہے۔یورپی یونین سے نکلنے پر برطانیہ میں اہم عمارتیں برطانوی پرچم کے رنگ میں رنگ گئیں،برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ پر روشن گھڑی نے یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کے بعد بلجیم میں برطانوی سفارتخانے سے یورپی یونین کا پرچم اتار دیا جبکہ برسلز سے یونین جیک کوبھی ہٹادیا گیا۔

یکم فروری 2020سے آئندہ 11ماہ کے دوران یورپی اور برطانیہ کو مستقبل کے تعلقات طے کرنا ہونگے جبکہ اس دوران برطانیہ یورپی یونین کے قوانین پر عمل کا پابند رہے گا۔ تاہم برطانیہ یورپی یونین میں قانون سازی کے عمل سے اب باہر ہوگااوربرطانیہ کا کوئی رکن یورپی پارلیمان یا کسی دوسرے ادارے میں بھی نہیں ہوگا۔

بریگزٹ آخر ہے کیا ؟؟؟
برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی اور 1975 میں ریفرنڈم کے ذریعے اسے قانونی حیثیت دی گئی ۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے 2016 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹےکا سودا تھا،اوراب یورپی یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔

2016 میں برطانیہ کے 51فیصدعوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیاتاہم برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

برطانوی پارلیمنٹ نے تھریسا مے کو وزیراعظم چنا تاکہ بریگزٹ کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہوتاہم اپنی ہی جماعت کی جانب سے مخالفت کے باعث تھریسامے بھی استعفیٰ دیکر چلی گئیں۔

برطانیہ کو 1945ء کے بعد سب سے بڑا معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا،جبکہ یورپی یونین کے اکثریتی ارکان کی خواہش تھی ہے برطانیہ بنا ڈیل کے یورپ سے باہر نکل جائے اوربرطانیہ کی ڈیفالٹ پوزیشن بھی یہی ہے۔ بریگزٹ نے برطانیہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے نہ صرف معاشرہ تقسیم ہوا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں میں دراڑیں پڑچکی گئیں۔

ڈیڈ لائن میں دوسری مرتبہ توسیع
برطانیہ نے یورپی یونین سے اپنے اخراج کا فیصلہ 2016ء میں ایک عوامی ریفرنڈم میں کیا ۔ اس کے بعد یونین نے برطانیہ حکومت کو بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی اجازت دے دی ۔پہلی بار حکومت کو بریگزٹ کا عمل 31 مارچ 2019ء تک پورا کرنا تھا جس میں بعد ازاں 31 اکتوبر تک 7ماہ کی توسیع کی منظوری دی گئی۔تاہم برطانیہ اکتوبر تک بھی یونین سے اخراج کی لازمی شرائط بروقت پوری نہیں کر سکا تھا اس لیئے یورپی یونین نے بریگزٹ کیلئے 31 جنوری 2020ء کی آخری ڈیڈلائن دی تھی۔

بریگزٹ میں رکاوٹ
برطانیہ کی معاشی تجارت کا زیادہ ترانحصار یورپ پر ہی ہے، ریفرنڈم کے فیصلے کے بعد برطانیہ کی علیحدگی تو طے تھی تاہم حکومت کی خواہش تھی کہ یورپ سے علیحدہ ہونے کے باوجو د یورپ کے ساتھ ایسا معاہدہ یا ڈیل طے پائے جو برطانیہ کے لیے زیادہ تجارتی طور پر نقصان دہ نہ ہو ۔روزمرہ کی اشیاء، اجناس اور گاڑیو ں کے کارخانے اور دوسری بڑی صنعتیں یورپ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔

آئرلینڈ کے بارڈرکا معاملہ بھی بریگزٹ میں تعطل کا موجب بنا رہا ،فریقین تجارتی اور رابطے کے طور پر نرم بارڈر چاہتے تھے چونکہ آئرلینڈ دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس کا ایک حصہ1948ءسے آزاد حیثیت سے موجود ہے اس لیے وہ تو یورپی یونین کا حصہ ہی رہے گا جب کہ برطانیہ کے زیر انتظام آئرلینڈ بھی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں نہیں تھا۔

بریگزٹ کےبعد کیا ہوگا
یورپی یونین سے انخلاء کے بعد ساڑھے 3 سال سے جاری غیریقینی صورتحال ختم ہوچکی ہے تاہم یورپی یونین سے علیحدگی خود برطانیہ کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہیں، برطانیہ کی حکمراں پارٹی نے بریگزٹ کی قیمت کے طور پر اپنے دو وزرااعظم کی قربانی دی اور اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی علیحدگی کے خدشات کا بھی سامنا ہے۔

11ماہ کی عبوری مدت تک برطانیہ سنگل مارکیٹ اورکسٹم یونین کا حصہ رہے گا اور یورپی یونین کے بجٹ میں حصہ دیتا رہے گالیکن برطانیہ دیگر ممالک کے ساتھ ان 11 ماہ میں نئے تجارتی معاہدے طے نہیں کر سکے گا۔برطانیہ کے شہری یورپی یونین کے ممالک میں آزادانہ سفر کر سکیں گےاورجہاں بھی موجود ہیں وہ اپنی ملازمت اور تعلیم جاری رکھ سکیں گے جبکہ یورپی یونین کے شہریوں کو بھی برطانیہ میں یہ تمام حقوق حاصل رہیں گے۔

یورپی یونین اور برطانوی حکومت کو آئندہ سال یکم جنوری 2021ء تک مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے لازمی حتمی معاہدہ طے کرنا ہوگا جس کے لیے 23مارچ 2020ء سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوجائےگا۔

Related Posts