امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس حراست میں موت کے بعد نسل پرستی کا معاملہ ایک بار پھر دنیا بھر میں پوری شدت کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا ہے۔ آج کے دور میں بھی امریکا اور یورپ سمیت دنیا کے بےشمار ممالک میں نسل امتیاز کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔
4 فروری 2004ء کو لانچ کی جانیوالی سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک اپنے قیام کے بعد عوام میں مقبولیت کے پیش نظر وقت کے ساتھ ساتھ ایک خالصتاً کاروباری پلیٹ فارم میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
دنیا بھر میں مختلف کاروباری اداروں نے روایتی میڈیا کے بجائے عوام میں براہ راست اپنی پروڈکٹ متعارف کرانے کیلئے فیس بک کا سہارا لینا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک ہر فرد کی ضرورت بنتا گیا اورفیس بک کے بانی مارک زکر برگ کے اثاثوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا جس نے مارک زکر برگ کو دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں تیسرے درجہ پر پہنچادیا۔
حال ہی میں دنیا کی 90 بڑی کمپنیوں کی طرف سے نفرت اور نسل پرستی کیخلاف مواد کی تشہیر و اشاعت کی وجہ سے فیس بک پر اشتہارات کا بائیکاٹ کردیا گیا۔
فیس بک کو یورپ کی سب سے بڑی کمپنی یونی لیور کی طرف سے اشتہارات کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایک دن میں 7 ارب ڈالر یعنی تقریباً سوا 11 کھرب پاکستانی روپےکا نقصان ہوا ہے۔
فیس بک مذہبی منافر اور فرقہ واریت کے حوالے سے مواد کو ہٹانے کیلئے بھی پیس و پیش کرتی ہے جبکہ فیس بک کی جانب سے نسل پرستی اورنفرت انگیز مواد کے علاوہ غلط معلومات کو ہٹانے کیلئے موثر اقدام نہ اٹھانے کی وجہ سے عالمی کاروباری اداروں نے ہم آواز ہوکر فیس بک کا بائیکاٹ کیا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کے نفرت انگیز بیانات پر بھی فیس بک کا ردعمل افسوسناک تھا، فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہمیشہ یہ کہتے پائے گئے کہ سیاسی رہنماؤں کے بیانات بغیر فلٹر پڑھنا عوام کا حق ہے جبکہ اکثر مواقع پر فیس بک پر شائع ہونیوالے غیر حقیقی مواد کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضائع اور غیر اخلاقی و غیر انسانی مواد کی تشہیر روکنے کیلئے بھی فیس بک نے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی۔
سیاہ فام سمیت دیگر اقوام کے ساتھ آج بھی نسلی امتیاز اورظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا اب نسلی امتیاز کی وباء سے چھٹکارہ پانے کی سعی کررہی ہے اور عالمی کاروباری اداروں کے اقدام نے ایک مثبت راہ متعین کی ہے۔ اس وقت دنیا بدل رہی ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہ کرنے والے لوگوں اور اداروں کا مقاطعہ لازمی ہے۔