بھارت میں توہین رسالت کا واقعہ، پس منظر کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بی جے پی کا گستاخانہ بیان، انڈونیشیا کے بعد ملائشیا کا بھی سخت ردِ عمل
بی جے پی کا گستاخانہ بیان، انڈونیشیا کے بعد ملائشیا کا بھی سخت ردِ عمل

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

دینی حوالے سے کچھ اہم معاملات پر مسلم دنیا کی حساسیت کو چھیڑنے اور مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنے کیلئے وقفے وقفے سے اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے شرارتوں کا سلسلہ ایک مستقل پریکٹس بن کر رہ گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کسی منظم پلان کے تحت، خاص مقاصد کے حصول کیلئے کیا جاتا ہے۔

ناموس رسالت ہر دور میں مسلمانوں کیلئے نہایت حساس ایمانی مسئلہ رہی ہے۔ اسلام کی چودہ صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے غلبے اور سیاسی بالا دستی کے دور میں کبھی اس معاملے پر مداہنت دکھائی اور نہ ہی کمزور، مغلوب اور محکوم ہونے کے بعد بھی اپنے نبی کی شان پر کبھی کمپرومائز کیا۔

اسپین میں مسلمانوں کے عہد حکومت میں باقاعدہ پلاننگ کے تحت عیسائی پادریوں نے توہین رسالت کی سیریل جسارت کا ارتکاب کیا، یہ ایسا خطرناک اور منظم حملہ تھا کہ اس سے سخت حملوں کا مسلمانوں نے جنگوں کے میدان میں بھی کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ مسلمان اپنی ہی حکومت اور اقتدار میں پہلی بار اپنے ذہن و قلب پر شدید نوعیت کے جذباتی چرکے محسوس کر رہے تھے۔

یہ توہین کا باقاعدہ سلسلہ تھا، جو لگ رہا تھا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ ایک پادری توہین رسالت کا ارتکاب کرلیتا، بات بڑھ جاتی، ریاست کارروائی کرکے اس کی دار و گیر کرتی تو ابھی شعلہ راکھ میں دفن نہیں ہوا ہوتا کہ ایک اور چنگاری اٹھ کر مسلمانوں کے جذبات اور عقیدت کے خرمن کو جا لگتی۔

ایک اور پادری اٹھتا اور توہین کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیتا جہاں پہلے بد بخت نے پہنچا دیا ہوتا۔ یہ سلسلہ بڑے عرصے تک چلا۔ اسلامی ریاست نے بالآخر گستاخی کے اس دیرپا فتنے کو قابو کر لیا اور ذمے داروں کو قانون کے مطابق سزا دے دی۔ یوں بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس اذیت سے نجات ملی۔

تاہم اس سیریل جسارتِ توہین اور اس پر ہونے والی کارروائی کے دوران کہیں ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں یا پھر مسلم حکام نے ایک بد بخت کے کرتوت کی سزا اس کی پوری برادری، قوم اور تمام ہم مذہبوں کو دی ہو اور سبھی عیسائیوں اور اہل کتاب کو اس توہین پر مستوجب سزا ٹھہرا کر گردن زدَنی بنا دیا ہو۔ کہیں ایسا نہیں ہوا، جو آج کے جذباتی مسلمانوں کا وتیرہ ہے کہ کسی بد بخت نے گستاخی کر دی تو اس کی پوری برادری پر دھاوا بول دیا ہو اور ان کی پوری کالونی جلا کر خاکستر کر دی ہو۔

ہسپانیہ کے با شعور مسلمانوں اور اسپین کی اسلامی حکومت نے بڑی حکمت اور اتنی ہی روا داری اور تحمل کے ساتھ توہین رسالت کی سزا کو صرف متعلقہ مجرموں تک ہی محدود رکھا اور باقی مسیحیوں اور اسلامی ریاست کے یہودی شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ اس میں آج بھی ہمارے لیے ایک گہرا سبق ہے۔

الغرض اسپین کا یہ واقعہ بہت شدید تھا۔ یہ ایسا سنگین حملہ تھا کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد تاریخ اسلام میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناموس پر مسلمانوں ہی کے عہد حکومت میں اتنے منظم انداز میں حملہ کیا گیا ہو، مگر مسلمانوں نے اس سیریل جسارتِ توہین اور ایمان اور عقیدت پر اس اذیت ناک وار کو بھی آخر کار پسپا کر دیا اور کسی صورت توہین برداشت نہیں کی۔

مغلوب اور محکوم ہونے کے بعد بھی توہین رسالت کے کئی اذیت ناک واقعات مسلمانوں کی ملی زندگی میں آئے۔ برطانوی ہند میں مسلمان جب غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، توہین اور گستاخی کے ہتھیاروں سے کئی دفعہ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کو نشانہ بنانے کے مراحل آئے۔ 1850 سے 1870ء کے دوران انگریز سرکار کی باقاعدہ سرپرستی میں اسلام کے عقائد اور احکامات پر فکری اور اہانت آمیز حملوں کا منظم سلسلہ جاری رہا۔ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عیسائی مشنریز، مسیحی مبلغین اور پادریوں کی فوج پھیلا دی گئی، جو چوک چوراہوں پر کھڑے ہو کر بطور خاص اسلامی عقائد کو نشانہ تضحیک بناتے اور عام سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں کو اپنے دین کے متعلق تشکیک میں ڈالنے کی کوشش کرتے۔

مگر مسلمان اہل علم نے کمال ضبط اور دلیل و برہان کے ساتھ اسلام پر ان حملوں کا مقابلہ کرکے عیسائی مبلغین کے فتنے سے عام مسلمانوں کو نجات دلائی۔ اس سلسلے میں علامہ رحمت اللہ کیرانویؒ کی خدمات سر فہرست مانی جاتی ہیں، جنہوں نے اس وقت کے سب سے بڑے فتنہ پرداز پادری فنڈر کو دلیل کے میدان میں شکست فاش دے کر ہندوستان سے فرار پر مجبور کیا۔

اس کے علاوہ 1929ء میں راجپال کا واقعہ بھی مسلمانوں کے عہد غلامی و محکومیت میں پیش آیا، جب راجپال نامی ایک ہندو ناشر نے بدترین توہین رسالت پر مشتمل ایک نہایت دلآزار کتاب شائع کی۔ یہ کتاب سامنے آتے ہی مسلمانان ہند اپنی غلامی کی اذیتوں کو بھول کر تڑپ اٹھے۔ ہنگامے ہوئے، احتجاج اور جلسے جلوس ہوئے، مگر برطانوی استعمار نے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پروا نہیں کی اور مجرم راجپال کیخلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کیا۔ جس کا نتیجہ غازی علم دین کے ہاتھوں راجپال کے قتل کی صورت میں پیش آیا اور اس واقعے میں علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، عطاء اللہ شاہ بخاری اور ایم ڈی تاثیر کا تاریخی کردار تاریخ میں محفوظ ہوا۔

بھارت میں واقعہ کیسے پیش آیا؟

اب آتے ہیں بھارت کے حالیہ واقعے پر جس پر پوری دنیا کے مسلمان ایک بار پھر شدید کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ آئیے ہم جانتے ہیں یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور اس کا کیا پس منظر ہے؟

بات 17 مئی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی مسلم اکثریتی ریاست اتر پردیش کے تاریخی شہر بنارس جو اب وارانسی کہلاتا ہے، کی بات ہے۔ وارانسی کا ایک نام کاشی بھی ہے۔ اس شہر کو ہندوؤں کے عقیدے میں مذہبی تقدس حاصل ہے اور یہ ایک طرح ہندوؤں کا مقدس شہر ہے۔ اسی شہر میں مشہور ہندو یونیورسٹی قائم ہے اور یہیں دریائے گنگا کے وہ مقدس گھاٹ موجود ہیں جہاں اشنان کرنے کیلئے بھارت اور دنیا بھر سے ہندو زائرین آتے ہیں۔

وارانسی ہندوؤں کے مقدس دریا دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے، چنانچہ یہاں متعدد اشنان گھاٹ بنے ہوئے ہیں۔ انہی گھاٹوں میں سے ایک گھاٹ کے قریب تاریخی مسجد گیان واپی موجود ہے۔ گیان واپی مسجد بعض روایات کے مطابق سترہویں صدی میں اور بعض روایات میں اس سے بھی پہلے بنائی گئی ہے۔ ہندوستان بھر میں موجود مسلمانوں کے تہذیبی ورثے اور تاریخی آثار کو ہندو انتہا پسندوں سے جو خطرات لاحق ہیں، بد قسمتی سے وارانسی کی گیان واپی مسجد بھی انہی خطرات کی زد میں ہے۔

بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے تاریخی آثار کو مٹانے اور ہتھیانے کیلئے جو شرمناک حربے اختیار کیے جاتے رہے ہیں، وارانسی کی تاریخی گیان واپی مسجد کو بھی بابری مسجد کی طرح صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے وہی گھسا پٹا حربہ روبہ کار ہے۔ ایک عرصے تک گیان واپی کی بنیادوں کو من پسند اور من گھڑت تاریخ کے پھاؤڑے سے کھود کر اس میں سے “کاشی وشنو ناتھ مندر” کا ملبہ “برآمد” کیا جاتا رہا۔

مگر مسلمانوں نے کوئی کان نہیں دھرے، نہ ہی انتظامیہ کو آگے بڑھ کر اس تحقیقِ تحکیک نما کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی ٹھوس بہانہ ہاتھ آیا تو 17 مئی کو تاریخی مسجد پر نگاہِ آز رکھنے والے مقامی ہندو انتہا پسندوں نے علاقائی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا کہ گیان واپی مسجد کے وضو خانے سے “شیو لنگ” بھگوان کی مورتی برآمد ہوئی ہے۔

لنگ سنسکرت میں مرد کے عضو تناسل کو کہتے ہیں۔ شیو لنگ ہندوؤں کا ایک بت ہے، جسے مکمل برہنہ شکل میں بنایا جاتا ہے اور پھر اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے نام پر الگ مندر بھی بنائے جاتے ہیں اور پوجا پاٹ کے سلسلے ہوتے ہیں۔

الغرض سترہ مئی کو مقامی عدالت میں دعویٰ دائر ہوا کہ گیان واپی مسجد سے شیو لنگ بھگوان کی مورتی ملی ہے، عدالت نے یہ سنتے ہی فوری طور پر یکطرفہ حکم جاری کر دیا کہ مسجد کے متعلقہ مقام جہاں سے مورتی برآمد ہوئی ہے کو سیل کر دیا جائے۔

مسلمانان ہند جانتے ہیں یہ وہی حربہ ہے جو بابری مسجد کو ڈھانے اور اس کی زمین ہتھیانے کیلئے اپنایا گیا تھا۔ اب گیان واپی مسجد اسی ہتھکنڈے کی زد میں ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد یہ معاملہ مقامی مسلمانوں کے درمیان قانونی اور سیاسی جنگ کا موضوع بن گیا۔ بات مقامی سے اعلیٰ عدالت کی طرف گئی تو معرکہ بھی وارانسی سے نکل کر کل ہند منظر نامے پر پھیل گیا۔ دونوں طرف سے قومی سطح پر اس معاملے پر سیاسی معرکہ آرائی شروع ہوئی۔

اس دوران 27 مئی کو times now نامی انڈین ٹی وی چینل نے اس موضوع پر شو کیا۔ پروگرام میں ایک طرف حکمران جماعت بی جے پی کی مرکزی ترجمان نو پور شرما شریک تھیں، دوسری طرف مسلم پولیٹکل کونسل آف انڈیا کے صدر تسلیم رحمانی شریک گفتگو تھے۔ مدعے پر بات چلی تو دونوں طرف سے الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آخر میں بی جے پی رہنما نو پور شرما نہایت ڈھٹائی سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا پر حملہ آور ہوئیں۔

نو پور شرما کی اس دلآزار گفتگو پر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے پروگرام احتجاجاً چھوڑ دیا۔ اگلے ہی دن ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے نو پور شرما، بی جے پی اور مودی سرکار کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست دی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ جس کے بعد بات پھیلتی چلی گئی اور بھارت کے مسلمان احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے۔ اس دوران انڈیا کے معروف مسلمان فیکٹ چیکر محمد زبیر نے معاملہ پوری تحقیق کے ساتھ ٹوئٹر پر اٹھا دیا، جس سے یہ معاملہ پوری دنیا کے سامنے آگیا اور ہر طرف سے بھارت، بی جے پی اور نو پور شرما پر تنقید شروع ہو گئی۔ ابھی معاملہ گرم تھا کہ چند دن بعد بی جے پی کے ایک اور رہنما نوین کمار جندال نے نو پور شرما کی دلآزار گفتگو کا ساتھ دیتے ہوئے اس جیسی بکواس دہرائی، جس سے بات مزید بگڑتی چلی گئی۔

یہ تھا اس واقعے کا پس منظر جس نے ایک بار پھر مسلمانان عالم کو ذہنی اور قلبی اذیت سے دو چار کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم ہے کہ کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین نہ کی جائے۔ یہ قرآن کا صریح حکم ہے، جس پر مسلمان مجموعی طور پر عامل ہیں اور کسی بھی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کی اظہار رائے کے نام پر دلآزاری سے گریز کرتے ہیں، مگر بد قسمتی سے مسلمانوں کو اس کے بر عکس رویے کا سامنا ہے۔

اسلام سے اختلاف اور تنقید مخالفین کی جانب سے ہمیشہ کی جاتی رہی ہے۔ آج بھی ہوتی ہے کہ ساری دنیا اسلام پر ایمان نہیں رکھتی، اس پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی محض اس بنیاد پر کہ اسلام سے اختلاف کیوں کیا جا رہا ہے، کسی مسلمان نے تلوار اٹھائی ہے۔ بات توہین، گستاخی اور دل آزاری کی ہے۔ علمی اختلاف اور علمی اعتراضات کا مسلمان اہل علم نے ہمیشہ علم و دلیل سے جواب دیا ہے، مگر توہین اور دلآزاری کا کیا علاج اور کیا جواز؟ دنیا کو اس سادہ سی بات اور مسلمانوں کی حساسیت کا ادراک کرنا چاہیے۔ کیا کسی کو گالی دینے سے روکنے کیلئے بھی کسی بڑی اور پیچیدہ دلیل کی ضرورت ہوتی ہے؟

Related Posts