دینی حوالے سے کچھ اہم معاملات پر مسلم دنیا کی حساسیت کو چھیڑنے اور مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنے کیلئے وقفے وقفے سے اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے شرارتوں کا سلسلہ ایک مستقل پریکٹس بن کر رہ گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کسی منظم پلان کے تحت، خاص مقاصد کے حصول کیلئے کیا جاتا ہے۔
ناموس رسالت ہر دور میں مسلمانوں کیلئے نہایت حساس ایمانی مسئلہ رہی ہے۔ اسلام کی چودہ صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے غلبے اور سیاسی بالا دستی کے دور میں کبھی اس معاملے پر مداہنت دکھائی اور نہ ہی کمزور، مغلوب اور محکوم ہونے کے بعد بھی اپنے نبی کی شان پر کبھی کمپرومائز کیا۔
اسپین میں مسلمانوں کے عہد حکومت میں باقاعدہ پلاننگ کے تحت عیسائی پادریوں نے توہین رسالت کی سیریل جسارت کا ارتکاب کیا، یہ ایسا خطرناک اور منظم حملہ تھا کہ اس سے سخت حملوں کا مسلمانوں نے جنگوں کے میدان میں بھی کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ مسلمان اپنی ہی حکومت اور اقتدار میں پہلی بار اپنے ذہن و قلب پر شدید نوعیت کے جذباتی چرکے محسوس کر رہے تھے۔
یہ توہین کا باقاعدہ سلسلہ تھا، جو لگ رہا تھا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ ایک پادری توہین رسالت کا ارتکاب کرلیتا، بات بڑھ جاتی، ریاست کارروائی کرکے اس کی دار و گیر کرتی تو ابھی شعلہ راکھ میں دفن نہیں ہوا ہوتا کہ ایک اور چنگاری اٹھ کر مسلمانوں کے جذبات اور عقیدت کے خرمن کو جا لگتی۔
ایک اور پادری اٹھتا اور توہین کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیتا جہاں پہلے بد بخت نے پہنچا دیا ہوتا۔ یہ سلسلہ بڑے عرصے تک چلا۔ اسلامی ریاست نے بالآخر گستاخی کے اس دیرپا فتنے کو قابو کر لیا اور ذمے داروں کو قانون کے مطابق سزا دے دی۔ یوں بڑی مشکل سے مسلمانوں کو اس اذیت سے نجات ملی۔
بیوروکریٹس کی تنخواہوں،مراحات میں کمی کافیصلہ ظلم ہے۔ ملک کی باگ دوڑ بیوروکریٹس کےہاتھوں میں ہےان کےساتھ تعاون کیاجائے۔بیوروکریٹس کومعاشی فکرسےآزاد کرناضروری ہے تاکہ وہ ملک سےمتعلق بہترفیصلےکرسکیں.
— Mahmood Moulvi (@MoulviMahmood) June 6, 2022