پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ پر الزام تراشی جاری ہے اور اپنے ایک بیان میں سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ ڈیل کی تھی۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ جنرل (ر) باجوہ کو توسیع دینا ایک ”غلطی” تھی اور انہوں نے سابق آرمی چیف پر ”دھوکہ دینے” کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس کے علاوہ، گزشتہ روز صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں، انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ”ابھی” رابطے میں نہیں ہیں۔
حالانکہ، سابق وزیر اعظم عمران خان واحد پاکستانی وزیر اعظم ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے معزول کیا گیا تھا۔ ان کی جگہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء شہباز شریف نے لے لی تھی، لیکن عمران خان اپنی معزولی کا ذمہ دار سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہیں۔
وزیر آباد کا حملہ، جس کا الزام عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر پر عائد کرتی ہے، ان کے لیے عوامی جذبات کو مزید متاثر کر سکتا ہے،جبکہ اس کے آثار پہلے ہی نظر آرہے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین پہلے امریکہ پر الزام لگا رہے تھے اور کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرا رہے تھے جسے انہوں نے ‘سائیفر’ کہا تھا اور امریکہ مخالف بیانیہ تیار کیا تھا، لیکن اب وہ اپنے پہلے والے موقف سے مکر گئے ہیں اور اب وہ براہ راست جنرل (ر) باجوہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہیں سابق آرمی چیف نے برطرف کروایا ہے۔
سابق وزیراعظم کے حامیوں کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ کون سا بیانیہ درست ہے، یا تو وہ امریکا پر الزام تراشی پر ڈٹے رہیں یا اپنی توپوں کا رخ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی طرف موڑ دیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے مسلسل یو ٹرن واقعی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر انہیں اپنی برطرفی میں امریکہ کے ملوث ہونے کا یقین نہیں تھا تو انہوں نے اس معاملے پر سیاست کیوں کی اور سپر پاور کے ساتھ ملک کے تعلقات کو خراب کیوں کیا؟ اور اب جب عمران خان جنرل (ر) باجوہ پر الزام لگا رہے ہیں تو کوئی کیسے یقین کرے کہ وہ اس معاملے پر ایک اور یو ٹرن نہیں لیں گے۔