عدالت نے عورت مارچ کے خلاف دائر درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں بچیوں کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عورت مارچ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت ہوئی جس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عورتوں کے نعرے اسلام کے دئیے گئے حقوق کے حصول کے لیے ہیں۔
درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا خواتین کے نعروں کی ہم اپنے طور پر کوئی تشریح کرسکتے ہیں جبکہ سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ایک خاتون تھیں۔
گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواتین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم اسلام میں دئیے گئے اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ اس کی مختلف تشریح کیسے کی جائے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میڈیا نے پریس کانفرنس شائع کی ہے۔ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت کس نے ختم کروائی؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ نے یہ رواج ختم کروایا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی بچیوں کی پیدائش کو اچھا شگون نہیں سمجھتے۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ہائیکورٹ نے عورت مارچ کے انعقاد کے خلاف درخواست کو سمیٹتے ہوئے اپنے پہلے بیانات کا اعادہ کیا کہ آئین کے تحت اجتماع کو روکا نہیں جاسکتا۔
جوڈیشل ایکٹوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیق کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں دعوی کیا گیا تھاکہ ریاست مخالف جماعتیں عوام میں انتشار پھیلانے کے مقصد کے ساتھ مارچ کو مالی اعانت فراہم کررہی ہیں۔
مزید پڑھیں:لاہور ہائی کورٹ کا عورت مارچ کو نہ روکنے کا فیصلہ