پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی حکام سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی، سیاسی اور سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
قبل ازیں بلاول بھٹو مصر کے شہر شرم الشیخ میں تھے جہاں پر انہوں نے اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ماحولیاتی کانفرنس کی سائیڈلائنز پر یورپی یونین اور دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے عالمی رہنماؤں سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔
اس سے پہلے وزیرخارجہ مختلف ممالک کے دورے کرچکے ہیں جن میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے اور عالمی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
عمران خان کی حکومت کی معزولی کے بعد جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اتحادی حکومت بنائی تو اس کے قیام سے پہلے ہی یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ بلاول بھٹو زرداری اس حکومت کے وزیر خارجہ کے لیے ایک نیچرل چوائس ہوں گے۔
اس کی ایک وجہ تو ان کا ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اور بینظیر بھٹو کا بیٹا ہونا ہے کیونکہ وہ دونوں سفارت کاری کے میدان میں ماہر تھے، اور دوسری وجہ بلاول کا بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ہے۔
لیکن اس کی ایک تیسری وجہ بھی تھی، وہ یہ کہ بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف علی زرداری چاہتے تھے کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیرخارجہ بن کر نہ صرف بین الاقوامی رہنماؤں سے تعلقات بنائیں بلکہ عالمی سیاست اور طرز حکومت کا تجربہ بھی حاصل کریں۔ یہ تجربہ آگے جا کر انہیں ملک کا وزیراعظم بنانے اور اس عہدے پر بہتر کام کرنے میں مدد دے گا۔
لہٰذا بلاول بھٹو زرداری نے جب رواں برس 27 اپریل کو اپنی وزارت کا حلف اٹھایا تو وہ 34 سال کی عمر میں پاکستان کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بن گئے۔
لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں انھیں کتنی کامیابیاں اور ناکامیاں حاصل ہوئیں؟
امریکہ کیساتھ تعلقات
ماہرین کے مطابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں متعدد اہم ممالک کے دورے اور کئی خاص اجلاسوں میں شرکت کے ذریعے بین الااقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف اجاگر کیا ہے لیکن کئی عوامل ایسے بھی ہیں جن میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
گزشتہ چھ ماہ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے، وزیر خارجہ نے مؤثر انداز میں عالمی رہنماؤں کے ساتھ بات کی اور جس طریقے سے سیلاب کے معاملے پر بین الاقوامی رہنماؤں کو متحرک کیا وہ تعریف کا مستحق ہے۔
افغانستان کا بڑھتا معاندانہ رویہ
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وزیرخارجہ چھ ماہ میں افغانستان کے معاندانہ رویے کو دوستی میں بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ افغانستان جس کے اوپر پاکستان نے بہت سرمایہ کاری کی لیکن ادھر سے جو معاندانہ بیانات آرہے ہیں، طالبان کا جو عدم دوستی پر مبنی رویہ نظر آرہا ہے اس پر خاص توجہ دینے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے افغانستان کے مسئلے پر بھرپور توجہ نہیں دی۔انہوں نے افغانستان کا دورہ نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی افغان پالیسی وہ نہیں ہے جو ریاست کی مجموعی طور پر ہے۔ ان کے خیالات مغرب سے زیادہ ہم آہنگ محسوس ہوتے ہیں۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے مسائل حل ہوں اور وہاں کی حکومت اپنے وجود کا بہتر جواز پیش کرے۔
جرمنی کا دورہ
ماہرین کے مطابق وزیرخارجہ کا جرمنی کا دورہ اُن کی سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ اُس موقع پر جرمنی نے کشمیر کے حق میں بیان جاری کیا تھا جس پر بھارت نے احتجاج بھی کیا۔
بھارت کیساتھ تعلقات
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کسی بین الااقوامی ادارے یا کسی دوسرے ملک کے بغیر وزیر خارجہ کی سطح پر بھارت سے براہ راست چینل آف کمیونیکیشن قائم کرنا چاہتے تھے جس میں انہیں ناکامی ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ بھارت سے مثبت رویے کا مظاہرہ نہ کرنا ہے۔ اسی لئے بعض سیاسی ماہرین بھارت کے ساتھ پیش رفت نہ ہونے کو بلاول بھٹو زرداری کی ناکامی سمجھتے ہیں۔
سیکریٹری خارجہ کی عدم تعیناتی
ماہرین کے خیال میں وزیرِ خارجہ کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی ایک باقاعدہ سیکریٹری خارجہ تعینات نہیں کرسکے جس کو اُن کی ناکامی میں شمار کیا جائے گا۔