جسمانی سزاؤں پر پابندی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قومی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے تحت ہر قسم کے تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا ؤں کی تمام اقسام پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور بچوں پر جسمانی تشدد پر مختلف جرمانے مقرر کئے گئے ہیں۔ واقعتا یہ ایک تاریخی اقدام ہے اور بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے اس اقدام کو سراہا گیا ہے جو اس قانون سازی کے لئے کئی سالوں سے مہم چلا رہے تھے۔

نئے قانون کے تحت جو اساتذہ بچوں کو کسی قسم کی سزا دیں گے،ان پر سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے گا، قطع نظر اس سے جس میں دفعہ 89 کی شقوں کو منسوخ کردیا جائے گا جس کے تحت اساتذہ اور سرپرستوں کو ”نیک نیتی کے ساتھ” جسمانی سزا دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ بچوں کے تحفظ کی خاطر گذشتہ سال، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سیکشن کو معطل کردیا تھا اور جسمانی سزا دینے کے عمل پر پابندی عائد کردی تھی۔

یہ سمجھنا چاہئے کہ سول سوسائٹی، شہزاد رائے جیسے کارکنوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی برسوں کی محنت اور کوششوں کے بعد یہ بل منظور ہواہے۔ سینیٹ کی ایک کمیٹی نے سن 2019 میں ایک بل منظور کیا تھا لیکن اسے پندرہ ماہ کے لئے روک دیا گیا تھا جب کہ حکومت نے اس قانون سازی کی منظوری کے لئے کوئی خاص کوششیں نہیں کی تھیں۔

اگرچہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بہت سے اساتذہ اور والدین کا خیال ہے کہ جسمانی سزا طلباء کو نظم و ضبط سکھانے کے لئے مفید ہے۔ اس رجعت پسندانہ ذہنیت کو تبدیل کرنا ضروری ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے، جس کی وجہ سے طلباء اسکول چھوڑ دیتے ہیں یا اپنی پڑھائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے لئے بڑے پیمانے پر آگاہی مہمات کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ اور اور سرپرستی کرنے والوں کو جسمانی سزا کے نقصان دہ اثرات سے متعلق حساس نظریات جیسے مثبت نظم و ضبط کو بہتر بنایا جاسکے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ اس قانون کو نافذ کیا جائے اور اساتذہ کے خلاف بچوں کی شکایات پر غور کیا جائے۔ یہ قانون چھ ماہ کے اندر اندر تمام میکانزم تیار کرنے کی سفارش کرتا ہے لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔ 2017 میں، حکومت سندھ نے جسمانی سزا سے متعلق ایک بل بھی منظور کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کے لئے اصول تیار نہیں ہوئے تھے۔ اس پابندی کو ملک کے تمام حصوں میں نافذ کرنا ضروری ہے۔

پاکستان کے اسکولوں کا شمار دنیا کے اچھے اسکولوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود متعدد اسکولوں میں توہین آمیز سزاؤں اور رویوں کی وجہ سے طالب علم اپنی پڑھائی چھوڑ جاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات میڈیا کو بہت کم رپورٹ کئے جاتے ہیں، اور اس سے بھی کم پولیس کو رپورٹ کئے جاتے ہیں، جبکہ اسکولوں میں بدسلوکی کے واقعات بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں۔ ہزاروں بچے ان صدمات کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں اور اس رویے کے باعث معاشرے کے لئے کارگر ثابت نہیں ہو سکتے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے اس مکروہ عمل کو ختم کریں۔

Related Posts