جامعہ اردو میں 13طلبہ کے داخلے پر پابندی،اساتذہ کا احتجاج، رینجرز طلب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ اردو میں 13طلبہ کے داخلے پر پابندی،اساتذہ کا احتجاج، رینجرز طلب
جامعہ اردو میں 13طلبہ کے داخلے پر پابندی،اساتذہ کا احتجاج، رینجرز طلب

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: جامعہ اُردو کی قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر روبینہ مشتاق کی جانب سے جاری ہونے والے دفتری حکم کے مجاریہ ادارہ نمبر 1226/2022میں لکھا ہے کہ 22مارچ کو گلشن اقبال کیمپس میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا تھا، جس میں  ڈنڈوں، پتھروں اور لوہے کی راڈوں کابے دریغ استعمال کیا گیا تھا، جس سے متعدد طلبہ زخمی ہوئے تھے، جس کے شواہد بھی موجود ہیں، مذکورہ واقعہ میں ملوث درج ذیل طلبہ کے جامعہ میں داخلے پر 15روز کے لئے پابندی عائد کی جاتی ہے۔

ان طلبہ میں شعبہ تجارت کے محمود علی مدبر، عبدالحق کیمپس سے تحسین، زین، شعبہ قانون سے ملک وسیم، شعبہ حیاتیاتی کیمیا سے گوند راجا، مسام کاظمی، شعبہ طبعیات سے ساجد حسین، حسین کاظمی، شعبہ فارمیسی سے تنظیم حسین، شارہ رخ، اسدخان اور انیس سمیت ابرار شامل ہیں۔جب کہ ان کے علاوہ مزید طلبہ کا جائزہ لینے کے لئے معاملہ جامعہ کی انضباطی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

قائم مقام رجسٹرار روبینہ مشتاق کی جانب سے ایک اور لیٹر نمبر 1224جاری کیا گیا ہے، جس میں ونگ کمانڈر 72رینجرز کو لکھا گیا ہے کہ22مارچ کو جامعہ کے گلشن کیمپس میں دو طلبہ تنظیموں کے مابین تصادم ہواہے، جس میں ڈنڈوں، پتھروں اور لوہے کی راڈوں کابے دریغ استعمال کیا گیا تھا، جس سے متعدد طلبہ زخمی ہوئے ہیں جس کے شواہد موجود ہیں، جبکہ کیمپس میں تدریسی عمل رکوا دیا گیا تھا۔

لیٹر میں مذید لکھا گیا ہے کہ مزاحمت پرجامعہ کے ملازمین سے بھی دست درازی کی گئی، جامعہ کے باہر بھی دونوں تنظیمیں باہم متصادم رہیں، جس کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، مذکورہ واقعہ کے بعد جامعہ کے اساتذہ و ملازمین شدید پریشانی میں مبتلا ہیں، جامعہ ہنگامہ آرائی میں ملوث طلبہ کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لا رہی ہے، احتمال ہے دونوں طلبہ تنظیموں کے مابین دوبارہ تصادم ہو سکتا ہے۔

جس کی وجہ سے جامعہ میں فوری طور پر کچھ دنوں کے لئے رینجرز کی نفری تعینات کرنے کے احکامات صادر فرمائیں تا کہ ممکنہ طور پر کسی بھی پرتشدد کارروائی کا سد باب کیا جا سکے اور کسی بھی جانی یا مالی نقصان سے بچا جاسکے۔

دوسری جانب جامعہ اردو کی جانب سے واقعہ کے ایک روز بعد جاری ہونیوالے وضاحتی بیان میں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کانام استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جتنے بھی گروپ بنائے گئے ہیں جن کے ذریعہ ان تضادات کو بڑھاوا دیا جاتا ہے ایسے تمام گروپوں کے خلاف سائبر قوانین کے تحت کارروائی کے لیے متعلقہ اداروں سے رجوع کرتے ہوئے انہیں غیر فعال کروایا جائے گا۔

اُردو یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق اعلیٰ سطحی کمیٹی نے کیمپس آفیسر سے اس ضمن میں مزید تحقیقات کرکے سفارشات جمع کروانے کی تاکید کی ہے تاکہ ان کی روشنی میں مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے اور یونیورسٹی کے تدریسی و انتظامی ماحول میں کوئی تعطل پیدا نہ ہو۔

دوسری جانب سے جامعہ اردو عبدالحق کیمپس میں اساتذہ کی جانب سے احتجاج شروع کردیا گیا ہے، انجمن اساتذہ عبدالحق کیمپس نے احتجاجی کیمپ لگا دیا ہے جس میں بیٹھے اساتذہ کا کہنا ہے کہ سلیکشن بورڈ کو مکمل کیا جائے،سیکریٹری انجمن روشن سومروکا کہنا ہے کہ مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو گورنر ہاؤس تک مارچ کریں گے، صدر مملکت نوٹس لیں اور تقررنامے جاری کریں اور سینیٹ کا اجلاس بھی جلد از جلد بلایا جائے۔

انجمنِ اساتذہ گلشن اقبال کیمپس کے معتمدِ عمومی شیخ کاشف رفعت کی جانب سے بیان جاری کیا گیاہے کہ انجمنِ اساتذہ گلشن اقبال کیمپس نے متفقہ طور پر سلیکشن بورڈ 2013 و 2017 کے خطوط کے اجراء میں تاخیر کے حوالہ سے علامتی احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے پیر 28 مارچ سے دن 1 سے 2 بجے ایڈمن بلاک کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کا فیصلہ کیا ہے، ذمہ دار استاد ہونے کے ناطہ تاکہ اساتذہ کے فرائض منصبی اور طلبہ کی تعلیم متاثر نا ہو،اس لئے احتجاج کا وقت دن 1 سے 2 بجے رکھا گیا ہے، احتجاج میں شرکت کرکے اساتذہ یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کریں اور اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔واضح رہے کہ سلیکشن بورڈ میں شعبہ فارمیسی اور شعبہ ریاضی کے اساتذہ رہتے ہیں جن کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں ہواہے۔

مزید پڑھیں: کیا جامعہ اردو میں وائس چانسلر ڈاکٹر اطہرعطا کی تعیناتی برقرار رہے گی؟

واضح رہے کہ 21مارچ کوامامیہ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے کارکن اورشعبہ تجارت کے طالب علم محمود علی مدبر اورپی ایس ایف کے کارکن اور بی ایس سی ایس کے طالب علم عمران خان کے مابین سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں کو لیکر ہونے والی گفتگو تلخ کلامی میں بدل گئی، جس کے بعد معاملات ہاتھا پائی کی جانب بڑھ گئے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کی انتظامیہ نے رینجرز اور پولیس کو طلب کر لیا تھا جس کے بعد معاملات باہمی جرگے میں طے ہونے کے باعث خوش اسلوبی حل ہوگئے تھے،مگراگلے روز 22مارچ کودوبارہ دونوں تنظیموں کے مابین تصادم ہوا تھا۔

Related Posts