بلوچستان کئی دہائیوں سے کشت و خوان کی لپیٹ میں ہے لیکن موجودہ حکومت بلوچستان کو خاص اہمیت دے رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کا کہ وہ صوبہ میں امن کے لئے بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ بات چیت کرنے پر غور کررہے ہیں خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔
اگر حکومت بلوچستان کی شکایات کے ازالہ کے لئے سنجیدہ ہے تو اس کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جائے۔
وزیر اعظم نے بلوچستان میں شورش کے لئے غربت اور پسماندگی کومورد الزام ٹھہرایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر خطے کی ترقی پر توجہ دی جاتی تو مسئلہ کبھی بھی نہیں بڑھ سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے دہشت گردی پھیلانے کے لئے ناپسندیدہ عناصرکا استعمال کیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صوبے میں امن و خوشحالی ہے تو مقامی لوگ خود کو پاکستان کا حصہ سمجھیں گے تاہم اس خطے کو باقی حکومت کے مساوی ہونے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
ماضی میں حکومتوں نے بلوچستان کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے یہ غریب ترین صوبہ ہے۔معاشی پیکیجز اور ترقیاتی اسکیموں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے کیونکہ بلوچستان کی ترقی کیلئے مختص ہونے والا فنڈ ہمیشہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ 2009 میں حکومت نے آغاز حق بلوچستان پیکیج کا آغاز کیا لیکن ایک دہائی گزرنے کے باوجود اس پرکوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
2020 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں 52 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ناخواندگی ، بے روزگاری اور تشدد کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ تقریباً ایک تہائی بلوچ نوجوان بے روزگار ہیں اور حالات انہیں عسکریت پسندی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ اس طرح وزیر اعظم نے ٹھیک کہا ہے کہ خوشحالی سے صوبے کی شکایات ختم ہوجائیں گی۔
یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جس میں تیل ، گیس ، تانبا اور سونا شامل ہے جس کا ماضی میں استحصال کیا گیا ہے تاہم اب بلوچستان میں وسائل کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکیت کے حقوق کی بھی ضرورت ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ دینے کے ساتھ حکومت کو قومی دھارے سے باہر لوگوں تک پہنچنے میں تیزی لانی چاہئے۔
اگر ہم واقعتاً بلوچستان کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں توگمشدہ افراد اور سیاسی کارکنوں کا معاملہ ، جلاوطنوں کی واپسی جیسے مسائل کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے علاوہ بلوچستان کے مسائل کا کوئی پرامن حل نہیں ہوسکتا۔