سانحہ بلدیہ فیکٹری : جے آئی ٹی رپورٹ نہیں انصاف دیا جائے۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

baldia factory fire

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو سانحہ بلدیہ فیکٹری، عزیر جان بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کا حکم دے دیاہے، ہائی کورٹ نے وفاقی وزیرِ علی حیدر زیدی کی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے۔

علی زیدی کامؤقف تھا کہ متعلقہ حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی پرکارروائی کیوں نہیں ہوئی؟۔عدالت نے سندھ حکومت کو جے آئی ٹی عام کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔

11ستمبر 2012 پاکستان کی تاریخ میں حیوانیت کا ایسا اندوہناک کھیل کھیلا گیا جسے دیکھ کرانسانیت بھی دہل گئی، 11ستمبرکی صبح گارمنٹس فیکٹری جانیوالے محنت کش یہ نہیں جانتے تھے کہ آج وہ خود نہیں بلکہ اُن کا لاشہ گھر واپس جائے گا۔ درندہ صفت ملزمان نے دووقت کی روٹی کے حصول کیلئے 260انسانوں کو زندہ جلا ڈالا،صبح سویرے تازہ دم ہوکر آنیوالوں کو کیا معلوم تھا کہ آگ میں جلنے کی ناقابل برداشت بُو پر کوئی ان کوپہچان بھی نہ پائے گا۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report
‘Baldia Factory Fire Case’, Give justice instead of JIT report

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا پس منظر
سانحہ کو 8سال ہوچکے ہیں، اس عرصے میں کئی دفعہ تحقیقات ہوچکی ہیں ،2015 میں سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ اداروں کو کیس کو ایک سال کے اندر مکمل کرنے کاحکم دیا تھا لیکن حکم کیس جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔یہ کیس ایک خاص سمت میں چل رہا تھا، واقعہ کے بعد ایف آیی اے کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق آگ حادثاتی تھی جو کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر ہونے والے شارٹ سرکٹ سے لگی لیکن پھر 2015 میں یہ انکشاف ہوا کہ آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ بھتہ نہ دینے کی پرجان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report

واقعہ میں انسانی جانوں کا ضیاع اور اداروں کی بے حسی
بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 11 ستمبر 2012ء کو علی انٹرپرائیزز میں آتشزدگی کے ہولناک واقعہ میں گارمنٹس کی فیکٹری میں آگ انتہائی سرعت سے ہر سو پھیل گئی۔اس وقت 15سو میں سے فیکٹری کے اندر اور باہر تقریباََ چارسو مزدورموجودتھے۔ آگ لگنے سے بھگڈرمچ گئی مگر دروازے باہر سے تالا لگا کر بند کردیئے گئے تھے، آگ بجھانے کا کوئی موثر نظام تھا اور نہ آگ کی اطلاع پاکر فائربریگیڈ کی گاڑیاں فوراََ پہنچیں۔

فائربریگیڈکے پہنچے تک عمارت کے اندر پھنسے مزدورراکھ کا ڈھیر بن چکے تھے، فائر بریگیڈ کے عملے نے 260مزدوروں کی جلی ہوئی ہڈیوں، راکھ اور انکے خاندانوں کے مستقبل پر پانی بہاکر اپنافرض پورا کردیا۔
صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے واقعہ پر غم اور صدمے کا اظہار کیا گیا۔ ہلاک مزدوروں کے لواحقین جن کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیاتھاانہیں مالی امداد کا جھانسہ دیکر انکے پیاروں کے لہو کو ارزاں کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی، بس بیانات پر بیانات داغے گئے۔

ایم کیوایم کے گورنر سندھ عشرت العباد نے علی انٹرپرائیزز کے مالکان عبدالعزیز اور شاہد بائیلہ پر واقعہ ملبہ ڈال کرانکے خلاف مقدمہ درج کرنے اور نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالنے کا عندیہ دیا۔
دو چار دن بیانات کی تندی جاری رہی، اسی دوران سندھ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا، ایک تحقیقاتی ٹربیونل قائم کیا گیا اس ٹربیونل نے تین ماہ کی خوب محنت کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں سارا ملبہ شارٹ سرکٹ پر ڈال کر معاملے کو محض ایک حادثہ قراردے دیااور یوں 260بلکتے خاندانوں کوقدرت کی ستم ظریفی ‘کے روبرو بے آسرا چھوڑ دیاگیا۔متاثرہ خاندانوں کو لاشوں کی شناخت، ڈی این اے اورامداد کے نام پر خوب ذلیل ورسوا بھی کیاگیا۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report

تحقیقات میں نیا موڑ
واقعہ کے دو سال پانچ ماہ کے بعد اچانک سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز اور مشترکہ تحقیقاتی ادارے کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا واقعہ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے پیش آیا۔ علی انٹرپرائیزز کے مالکان نے ایم کیوایم کی طرف سے بھتہ دینے کے حکم کی تعمیل نہ کی جس کی وجہ سے فیکٹری کو مزدوروں سمیت جلادیا گیا۔ علی انٹرپرائیزز کے مالکان اس وقت شہر پر قابض ایم کیوایم کے حامی تھے اور اپنے کاربار کو قائم رکھنے کے عوض پارٹی کو باقاعدگی سے فنڈدیا کرتے تھے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ جے آئی ٹی رپورٹ سچ ہے تو جسٹس زاہد قربان علوی کی رپورٹ کن بنیادوں پر مرتب کی گئی؟۔طویل عرصے تک جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ منظر عام پر کیوں نہیں لائی گئی؟ اور دوسال بعد کیوں منظر عام پر آئی یا لائی گئی؟ مزدوروں کے خلاف اتنی بڑی جارحیت کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف دوسال تک چپ کیوں سادھے رکھی گئی؟۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report

فیکٹری مالکان کے انکشافات اور گواہوں کے بیانات
کراچی میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی ، دبئی میں پاکستانی سفارتخانے سے فیکٹری کے مالک ارشد بھائیلہ کا ویڈیوبیان ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے ایم کیوایم رحمان بھولا، زبیر چریا، رؤف صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو شناخت کیاتاہم دو ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔

فیکٹری کے مالک نے اپنے بیان میں بتایا کہ منصور نامی شخص نے 2004 میں فیکٹری میں ملازمت اختیار کی جس کے ساتھ ایم کیو ایم کا بھتہ بھی شروع ہوگیا،ایم کیو ایم سے بھتے کے معاملات منصور نے ہی طے کرائے تھے۔ ارشد بھائلہ کے بیان کے مطابق ایم کیو ایم کو 15 سے 25 لاکھ روپے ماہانابھتہ جاتا تھاپھر کراچی تنظیمی کمیٹی کے حماد صدیقی کے کہنے پر2012 میں 25 کروڑ مانگے گئے ، ارشدبھائلہ کا کہنا ہے کہ میں نے منصور سے کہا کہ ایک کروڑ دے کر معاملات طے کرلو لیکن رحمان بھولا نے کہا کہ یا تو 25 کروڑ دیں یا پھر پارٹنر شپ کریں۔فیکٹری کے مالک ارشد بھائیلہ نے بتایا کہ 11 ستمبر کی شام فیکٹری سے نکل رہا تھا کہ اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ آگ لگ گئی ہے، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فائر بریگیڈ پہنچی لیکن ان کے پاس پانی ہی نہیں تھا اور آلات بھی نہیں تھے، میں نے فائر بریگیڈ کو اپنے ہائیڈرنٹ سے پانی کی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔

فیکٹری کے پروڈکشن انچارج نے بحیثیت گواہ عدالت میں بیان قلمبند کروایا جس میں ان کاکہنا تھا کہ فیکٹری مالکان نے بتایا متحدہ قومی موومنٹ والوں نے 25 کروڑ روپے مانگے، معاملات طے نہ ہونے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔

بلدیہ فیکٹری کے مالک ارشد بھائلہ کاکہنا ہے کہ ہمارے خلاف ایف آئی آر بھی ایم کیوایم کے دباؤ پر درج کی گئی،عدالت نے ارشد بھائیلہ کے بیان کو کیس کا حصہ بنالیاہے۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report

متاثرین کے حالات اورامداد
1500 مزدوروں سے کام لینے والی یہ فیکٹری علی انٹرپرائزز اپنی مجموعی پیداوار کا 80 فیصد حصہ جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹ چَین (KiK) کو فراہم کرتی تھی۔واقعہ کے حوالے سے آج بھی مختلف آرا ء سننے کو ملتی ہیں ،عدالت میں چل رہے مقدمے کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے تاہم مزدوروں سے جڑے اداروں نے مل کر جرمن خریدار کو ڈھونڈ ہی نکالا۔

4 برس کے مذاکراتی عمل کے بعد (KiK) متاثرین کے گھر والوں کو طویل المدت بنیادوں پر 51 لاکھ 50 ہزار ڈالر زرِ تلافی دینے پر راضی ہوگئی۔2016ء میں طے پانے والا یہ معاہدہ صنعتی شعبے میں حادثات کی تاریخ کا عدالت سے باہر کسی بھی انفرادی خریدار کے ساتھ سب سے بڑا تصفیہ ہے۔

اس سے قبل کمپنی متاثرین کے گھر والوں کی فوری امداد کے لیے ہائی کورٹ کے ذریعے 10 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کرچکی تھی۔ طویل المدت بنیادوں پر ادا کی جانے والی زرِ تلافی کی رقم 2017ء سے متاثرین کے ورثا اور زندہ بچ جانے والوں کو بطور ماہانہ پنشن فراہم کی جا رہی ہے۔ اس اسکیم پر سیسی کی مدد سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے جبکہ اس کی نگرانی مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے۔

'Baldia Factory Fire Case', Give justice instead of JIT report

کیس کی موجودہ صورتحال
واقعہ کی نئی ایف آئی آر میں رحمٰن بھولا، حماد صدیقی، زبیر عرف چَریا اور اس کے چار ساتھیوں عمر قادری، عبدالستار، علی حسن قادری اور مسمات اقبال ادیب خانم کا نام شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ۔رحمان بھولا اورزبیر چریا جےآئی ٹی کےسامنے بھتہ نہ دینےپرآگ لگانےکااعتراف کرنے کے بعد عدالت میں اپنے بیان سے مکر چکے ہیں ،واقعہ کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں تاہم اس اندوہناک واقعہ میں جن کے سہاگ اجڑے ان بیواؤں چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں اور ادھر کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہہ موٹی ہوتی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا سسٹم ان مظلوموں کو انصاف دے پائے گا؟ یا اس المناک سانحہ کا فیصلہ بھی دیگر اہم واقعات کی طرح آخری عدالت ہی کرے گی؟۔

Related Posts