پچھلے چند سالوں کی صورتحال ہمارے سامنے ہے، یہ ناقابل تصور تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین امن قائم ہو پائے گا۔ دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات بہتری کے بجائے پستی کی جانب بڑھے، تجارت کو ختم کردیا گیا، سفیروں کو واپس بلا لیا گیا اور ایک کشمکش کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور اس صورتحال نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچادیا، تاہم اب دونوں ممالک کے مابین سالوں سے منجمد تعلقات آہستہ آہستہ بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
فروری میں، دونوں ممالک کی جانب سے جنگ بندی، سیز فائد اور تمام سرحدی در اندازیوں کو ختم کرنے کا حیرت انگیز اعلان کیاگیا۔ گذشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے بھی بتدریج پالیسی میں ردوبدل دیکھا گیاتھا جس میں کہا گیا تھا کہ ”ماضی کو دفن کرنے کا وقت ہے” اور آگے بڑھیں۔ جبکہ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل پر زور دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر دونوں فریقوں کے درمیان غیر منقولہ تنازعات علاقائی امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد امن کے معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، حالانکہ واشنگٹن نے ان سوالوں کی تردید کردی ہے کہ اس نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات، جو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتا ہے، خفیہ بات چیت میں مصروف ہے، دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے اعلی سفارتکار کے بڑھتے ہوئے باہمی رابطوں نے بیک ڈور مذاکرات کا اشارہ دیا ہے۔
اب توقع کی جارہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوگی، جس سے تعلقات میں مزید بہتری آسکتی ہے۔سیز فائر کو محفوظ بنانے کا پہلا مرحلہ طے پا گیا ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے لئے جیت کی صورتحال تھی کیونکہ چین کے ساتھ سرحدی محاذ آرائی میں بھارت ملوث تھا۔ اگلے دور میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد تجارتی مذاکرات کی بحالی ہوسکتی ہے۔ ایک تاریخی شروعات جس میں توقع کی جارہی ہے کہ ہندوستانی فوجی پاکستان میں فوجی مشقوں میں حصہ لیں گیں۔
دونوں فریقین کو بالآخر احساس ہو ا کہ وہ بیان بازی کو جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ امن ناگزیر ہے۔ اگر مودی حکومت آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اسے تناؤ کو ختم کرنا ہوگا، علاقائی طاقتوں کے امن کو فروغ دینے کے اقدامات کو سراہنا چاہئے۔دونوں فریقوں کو پرامن، مستحکم اور خوشحال خطے کے لئے محاذ آرائی ختم کرکے ایک دوسرے سے تعاون کا انتخاب کرنا ہوگا، لازم ہے کہ دشمنیوں اور تنازعات کی بجائے امن اور ترقی پر توجہ دی جائے۔