آزاد کشمیر کی سیاست اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار ( حصہ دوم)

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آزاد کشمیر کی سیاست اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار
آزاد کشمیر کی سیاست اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار

آزاد کشمیر کی سیاست میں مذہبی طبقات کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں مذہبی طبقات میں ہم آہنگی، یکجہتی اور تعاون و تناصر کی فضا نہیں- ہر جماعت ہر شخصیت اور ہر کوئی خود کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ آخر کار وہ کوئی بھی اچھی ڈیل کرنے یا زیادہ پروٹوکول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے- مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے مابین ہم آہنگی کا تو سوال ہی نہیں خود مسالک میں داخلی سطح پر بھی مفاہمت کی فضا نہیں- دیوبندی مکتب فکر کی مختلف جماعتوں اور تنظیموں کے وابستگان کے مابین محاذ آرائی اور کھینچا تانی کی ایسی فضا ہے کہ الامان و الحفیظ۔

سیٹ نکالنا تو دور ایسے لوگ جو الیکشن میں حصہ تک لینے کا ارادہ نہیں رکھتے محض ڈیل کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں لیکن آپس میں اس قدر آپا دھاپی ہوتی ہے کہ نہ پوچھیے اگر اتحاد نہ سہی صرف باہمی کوآرڈینیشن اور مفاہمت کا ماحول ہوتو اس کا بھی بہت فائدہ اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے-

آزاد کشمیر کے مختلف حلقوں میں اہلسنّت و الجماعت کے سیاسی ونگ پاکستان راہ حق پارٹی نے بھی امیدوار کھڑے کیے جن میں ہمارے کئی دوست اور بعض شاگرد بھی شامل تھے- پاکستان راہ حق پارٹی کی پالیسی یہ تھی کہ حلقہ وائز مقامی صورت حال کا جائزہ لے کر جس امیدوار کے حق میں مناسب سمجھا جائے الیکشن سے دستبردار ہو جائیں، یکے بعد دیگرے راہ حق پارٹی کے تقریباً تمام امیدوار ہی مختلف امیدواروں کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں جن میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے امیدوار شامل ہیں، بنوری ٹاون کراچی کے سامنے واقع مسجد جو کشمیری طلبہ کا مرکز ہوتی تھی جس کے خطیب مولانا طیب کشمیری صاحب ہیں ان کے داماد اور ہمارے دوست مولانا حسین احمد توحیدی بھی راہ حق پارٹی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے جو پی ٹی آئی کے سردار تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہوئے- یاد رہے کہ مولانا حسین احمد آزاد کشمیر کی اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی ہیں- اسلامی نظریاتی کونسل سے یاد آیا ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور مرنجاں مرنج شخصیت برادرم مولانا عتیق دانش بھی آزاد کشمیر کی نظریاتی کونسل کے ممبرہیں اور وہ ہمیشہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹر اور سپورٹر ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چودھری لطیف اکبر کے نہ صرف دست راست رہے بلکہ ان کی جیت میں کلیدی کردار بھی ادا کرتے رہے لیکن عتیق دانش صاحب کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے حلقے سے مسلسل جڑے رہے اور ہر اہم موقع پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ اور تعلقات و مراسم دینی اور مسلکی مفادات کے لیے استعمال کیے یہی وجہ ہے کہ انہیں آزادکشمیر میں بہت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- آزاد کشمیر کے سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو لگتا ہے کہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے کی بجائے باوقار طور پر دینی کاز کے لیے مختلف مورچے سنبھالنا ایک اچھی حکمت عملی ہے-یعنی کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے-

اس دفعہ آزاد کشمیر انتخابات میں ایک چیز جو بہت زیادہ زیر بحث رہی بلکہ متنازعہ بھی بنی وہ آل جموں وکشمیر جمعیت علمائے اسلام کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے جس نے لوگوں میں بہت سے شکوک وشبہات اور سوالات کو جنم دیا اور لوگ اس اتحاد کو جے یوآئی کی طرف منسوب کرتے رہے- آل جموں و کشمیر جمعیت کے مولانا محمود الحسن اشرف اس سے پہلے بھی بعض جماعتوں سے کاغذی معاہدے کرتے رہے لیکن اس بار چونکہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان میں پی ٹی آئی سے جے یو آئی کی محاذ آرائی کے ماحول میں جمعیت اور علماء کے نام سے ہونے والے اس اتحاد پر سوالات اٹھنا ایک فطری عمل ہے- مولانا محمود الحسن اشرف سے اس حوالے سے جب ہماری بات ہوئی تو انہوں نے اپنا دس نکاتی بیانیہ پیش کیا، کچھ مخلصین کی کاوشوں کا ذکر کیا، یہ جواز پیش کیا کہ ہمارا اتحاد پی ٹی آئی سے نہیں ہوا بلکہ وزارت امور کشمیر کی وساطت سے حکومت پاکستان سے ہوا ہے- مولانا محمود الحسن نے اپنے دس نکاتی بیانیہ پر پی ٹی آئی کے امیدوروں سے دستخط بھی کروا رکھے ہیں- مولانا  محمود الحسن اشرف اگرچہ سولو فلائٹ کرتے ہیں لیکن ان کی خصوصت یہ ہے کہ  پریس ریلیز تسلسل سے جاری کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں اور اسمبلی اور ایوان اقتدار سے چند قدم کے فاصلے پر ہونے کے باعث مسلسل دس نکاتی بیانیے کی گھنٹی بجاتے رہیں گے- مولانا محمود الحسن اشرف ہلکے سروں میں اپنے سلسلے جاری رکھتے ہیں لیکن اب کی بار پیر مظہر شاہ بھی ان کے ساتھ ہوگئے اور “گل ودھ گئی”

پیر مظہر شاہ،عبداللہ شاہ مظہر کے نام سے جانے جاتے تھے- آپ ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں اور جہادی اور تحریکی زندگی کا ایک طویل سفر طے کیا، سیماب صفت ہیں، نئے سے نئے ایڈونچر کرتے رہتے ہیں۔ جیش محمد سے تحریکِ غلبہ اسلام تک اور کراچی کی بطحا مسجد سے اسلام آباد کی لال مسجد تک مولانا عبداللہ شاہ مظہر کی زندگی اور شخصیت کے مختلف رنگ وقتا فوقتاً سامنے آتے رہے- اب کی بار انہیں کوچہ سیاست کی سیاحت کا شوق چرایا بلکہ 2005 کے زلزلے کے بعد آپ اپنے آبائی علاقے کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک دفعہ اس سے قبل بھی انتخابات میں حصہ لیا درمیان میں خاموشی بھی رہی اور کچھ دیگر مسائل سے بھی گزرے اب کی بار کچھ عرصہ قبل مولانا فضل الرحمان کے یادگار دورہ کشمیر کی میزبانی کے حوالے سے منظر عام پر آئے بعد ازاں مسلم کانفرنس کے ساتھ ٹکٹ کے حصول کا قول و قرار کیا لیکن جب وہاں سے وعدہ وفا نہ ہوا تو مولانا محمودالحسن اشرف کی آل جموں وکشمیر جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیا اب اس اتحاد میں سے کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا؟

ویسے پیر مظہر شاہ نے جب یہ کڑوا گھونٹ بھر ہی لیا تو اب ان کو باقاعدہ “اکاموڈیٹ” کیا جانا چاہیے اور “ری ہیبلی ٹیشن” کا جو سلسلہ چل رہا ہے اسی کے تحت ہی سہی پیر مظہر شاہ کو مجوزہ حکومت میں علماء ومشائخ کی سیٹ سے منتخب کروا کر کوئی ایسا کردار دینا چاہیے جسے اپنے تئیں ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکے لیکن یہ محض ایک خیال یا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے عملا ایسا ہوگا نہیں تاہم عبداللہ شاہ مظہر ایک باصلاحیت اور ںاہمت عالم دین ہیں انہوں نے پہلے مسلم کانفرنس کا انتخاب کرکے اور بعد ازاں مولانا محمودالحسن اشرف کی جمعیت میں شمولیت اور اس کے بعد جمعیت کے نام سے پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے یکے بعد دیگرے تین غلطیاں کیں اگر وہ حکمت سے کام لیتے تو ان کے لیے مستقبل کی کشمیر کی مذہبی سیات میں بڑا اسکوپ تھا-

یہاں یہ بات سمجھیے کہ کشمیر کے دو حصے ہیں کوہالہ سے اُدھر والا کشمیر اور کوہالہ سے ادھر والا کشمیر اس وقت مولانا سعید یوسف اور مولانا امتیاز عباسی دونوں ہی کوہالہ سے پہلے والے کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ مظفرآباد اور اس سے آگے کے کشمیر میں بالکل ہی قحط الرجال کی کیفیت ہے- اگر عبداللہ شاہ مظہرجمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے مذہبی سیاست کی مین اسٹریم میں آ جاتے اور بتدریج مظفرآباد کو مرکز بنا کر وادی نیلم اوروادی جہلم میں کام کرتے تو وہ بڑے باوقار انداز سے اپنے لیے بہت اچھی جگہ بنا سکتے تھے بلکہ مولانا سعید یوسف کا متبادل آپشن بن سکتے تھے اگرچہ وقت تو تھوڑا سا لگ جاتا لیکن نہ عزت سادات ہاتھ سے جاتی اور نہ ہی ہر جگہ متنازعہ ہوتے اور آئندہ کے لیے صرف کسی ایک حلقے میں نہیں بلکہ پورے خطے میں گیم چینجر کے طور پر سامنے آتے-

کشمیر کی سیاست کا درست تجزیہ کرتے ہوئے یا وہاں کے حوالے سے کیے جانے والے کسی بھی سیاسی فیصلے کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہے کہ ہر جگہ کے حالات اور ہر وقت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں خاص طور پر کشمیر کے سیاسی معاملات اور فیصلوں کو پاکستان کے سیاسی حالات پر مکمل طور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کے پی کے اور بلوچستان کے ٹھیٹھ مذہبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے حضرات ملک کے دیگر خطوں میں دینی سیاست کو درپیش چیلنجز کا صحیح طرح ادراک کر سکتے ہیں اس لیے فوری طور پر ہر کسی کو دشمنوں اور مخالفین کی صفوں میں دھکیلنے سے قبل ذرا معاملے کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے لینا چاہیے اور اپنوں کے لیے واپسی کے دروازے بہرحال کھلے رکھنے چاہیں بشرطیکہ وہ اپنوں والا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔

ابھی تک کے تجزیے کے مطابق کشمیر کی سیاست ہمیشہ سے ضمنی انتخابات والے مزاج پر رہی یعنی جیسے ضمنی انتخابات میں عموماً حکومتی امیدوار جیت جاتا یے ایسے ہی کشمیر میں اسی کی جیت ہوتی یے جس کی مرکز میں حکومت ہو اور اب کی بار چونکہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اس لیے آثار تو یہی ہیں کہ پی ٹی آئی یا دوسرے اور تیسرے آپشن کے طور پر مسلم کانفرنس اور پی پی کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں گے لیکن مذہبی طبقے کو بہرحال کشمیر اور کشمیر کی سیاست سے لاتعلق نہیں رہنا اور جس قدر بن پڑے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

Related Posts