کراچی: وزیر جامعات و بورڈ محمد اسماعیل راہو کو دی گئی درخواست میں جامعہ کراچی KIBGE کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد کاظم علی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں ایک طالب علم کے پاس اسلحہ کی نشاندہی کرنے پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مجھ سے HEC کا پروجیکٹ لے لیا گیا، جبری استعفیٰ لیا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں،اگر مجھے انصاف نہ ملا تو میں Ph.D ڈگری واپس کر دوں گا۔
ایم ایم نیوز کو حاصل ہونے والی دستاویز کے مطابق جامعہ کراچی کے اندر قائم ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹیٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینٹیکس (KIBGE) کے قائم مقام ڈائریکٹر عابد اظہر کے انتقام کا نشانہ بننے والے سابق اسسٹنٹ پروفیسر محمد کاظم علی نے وزیر جامعات و بورڈ محمد اسماعیل راہو کو لکھا ہے کہ ” میں ڈاکٹر محمد کاظم علی جامعہ کراچی میں 11 نومبر 2019 سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہا ہوں۔
میں نے جامعہ کراچی سے ہی BSCاور ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی ہے یوں گزشتہ 16 برس سے جامعہ سے منسلک ہوں۔اسی بنا پر جامعہ کی خدمت اور سندھ کے عوام کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری تحقیق کا موضوع بھی سندھ میں زراعت کے شعبے میں ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ جس کیلئے میں نے HEC سے لگ بھگ ایک کروڑ کے فنڈز منظور کروانے ہیں۔
لیکن جامعہ میں درپیش مسائل کی وجہ سے وہ فنڈز ابھی تک جاری نہیں ہو سکے۔ اس کے علاوہ فرانس میں ایک تحقیقی ادارہ CIRAD کی مدد سے صوبہ سندھ میں پودوں کی بیماری سے بچاؤ کیلئے معاہدہ ہو چکا تھا لیکن وہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلکہ مجھ سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا ہے، میں نے جامعہ کراچی اور HEC کو اطلاع دی ہے کہ اگر مجھے انصاف نہ ملا تو میں اپنی Ph.D کی ڈگری جامعہ کراچی کو واپس کر دوں گا۔میں اتھارٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے میں فوری انصاف دیا جائے۔
وزیر جامعات اینڈ بورڈ محمد اسماعیل راہو نے مذکورہ درخواست ملنے کے فوراً بعد سیکرٹری مرید راہموں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں تمام فیکٹ کو ملحوظ رکھتے ہوئے رپورٹ پیش کریں۔اس حوالے سے جامعہ کراچی کے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر مقصود انصاری سے رپورٹ طلب کی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر KIBGE عابد اظہر کے مابین اس وقت معاملات کشیدہ ہوئے تھے جب اسسٹنٹ پروفیسر محمد کاظم علی نے مبینہ طور پر ایک ایم فل طالب علم سے پستول برآمد کیا تھا جس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو بھی دی گئی تھی۔جس کے بعد مذکورہ معاملہ KIBGE کی گورننگ کونسل میں رکھا گیا جس میں انکوائری کمیٹی بنا دی گئی۔ جس کا سربراہ سلیم حبیب یونیورسٹی کے وائس چانسلر شکیل خان کو بنایا گیا تھا۔
شکیل خان کی جانب سے متاثرہ اسسٹنٹ پروفیسر محمد کاظم علی کو تحریری سوالات ارسال کئیجن کے جوابات بھی تحریری طور پر دیئے گئے تھے۔ بعد ازاں کمیٹی اور گورننگ کونسل کی جانب سے اسسٹنٹ پروفیسر محمد کاظم علی کو حق بجانب قرار دیا گیا اور ان کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی سے منع کیا تھا تاہم اس کے باوجود ڈائریکٹر KIBGE کی جانب سے یکطرفہ کارروائی کر کے محمد کاظم علی کو استعفیٰ دینے کا کہا گیا تھا، استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں اسسٹنٹ پروفیسر کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ KIBGE میں بھی جامعہ کراچی کے چند دیگر شعبہ جات کی طرح اسسٹنٹ پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے ساتھ انتقامی کارروائی اپنے لیئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ تاکہ کوئی دوسرا پروفیسر بن کر ان کے لئے خطرہ نہ بنے۔ جس کی وجہ سے اب تک 7 سے 8 اسسٹنٹ پروفیسرز جامعہ کراچی کے KIBGE کو چھوڑ چکے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر حیدر عباس، ڈاکٹر سیدہ قمر النساء، ڈاکٹر عارف چشتی، ڈاکٹر سید محمد شاہد، ڈاکٹر ناہید سمیت دیگر شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹیٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینٹیکس انجنیئرنگ کو گزشتہ 12 برس سے قائم مقام ڈائریکٹر کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔
انسٹیٹیوٹ میں بعض اسسٹنٹ پروفیسرز کا استحصال کیا جا رہا ہے جن کی رپورٹس روک کر ان کو ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر سعدیہ گیلانی اور ڈاکٹر افشین امن سمیت دیگر شامل ہیں۔ ان کی رپورٹس روک کر دیگر اپنے قریبی اسسٹنٹ پروفیسرز کی رپورٹس بھیجی بھیج کر ترقی دلوائی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں:جامعہ کراچی میں سندھ بینک کے بجائے نجی بینکوں کو نوازنے کا ہوشربا انکشاف