جمعیۃ علماء ہند کے سو سال پورے ہونے کے حوالے سے سلاطین دہلی کے دار الحکومت دہلی میں دو دن سے جاری صد سالہ تقریبات کا اختتام ہوگیا۔
صدر مولانا محموداسعد مدنی کے زیر نگرانی مولانا فخرالدین احمد مرادآبادیؒ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ کی حیات و خدمات پر دو روزہ سیمینار آج این ڈی ایم سی کنونشن سینٹر میں مکمل ہوگیا۔
آخری نشست کی صدارت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری نے انجام دیے۔
سیمینار کی گزشتہ شام کی نشست کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کی۔
اپنے کلیدی خطاب میں مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی تقسیم کے بعد پوری جمعیۃ ایک امتحان میں مبتلا تھی ، ایک طرف جمعیۃ علماء ہند نے اپنوں کی شدید مخالفت کے باوجود تقسیم وطن کو قبول نہیں کیا، دوسری طرف ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے مستقبل کا مسئلہ درپیش تھا۔
ہریانہ و پنجاب میں مسلمانوں کا انخلا ہو رہا تھا۔ دہلی سے بھی مسلمانوں کو نکالنے کی سازش ہورہی تھی۔ اس وقت مولانا حفظ الرحمنؒ سے یہ بھی کہا گیا کہ آپ جن جن خاندانوں کے بارے میں چاہتے ہیں، ان کی فہرست دیدیں، ہم ان کی حفاظت کریں گے، باقی سارے مسلمانوں کی فکر چھوڑ دیں، تو مولانا نے برجستہ جواب دیا کہ یہ ہرگز منظور نہیں کہ صرف حفظ الرحمن کی جان بچ جائے اور باقی سب خطرے میں رہیں، چنانچہ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ساتھ گاندھی جی اور پنڈت نہرو سے ملاقات کی اور ان کو قائل کیا کہ دہلی کو جنوبی ہند کی فوج کے حوالے کیا جائے، چنانچہ اس کے بعد امن قائم ہوا اور مسلمانوں کی زندگی بچ پائی۔
مولانا ارشد مدنی نے مولانا فخرالدین احمدؒ کی قوت حافظہ کو فقید المثال بتاتے ہوئے کہا کہ انھوں نے محض ایک ماہ میں مکمل قرآن حفظ بھی کیا اور تراویح میں سنابھی دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
طالبان حکومت نے این جی اوز کے خواتین اسٹاف کو بھی کام سے روک د دیا
اس سے قبل مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، بہت سے دانشور اور مفکرین ان حالات پر لگاتار فکرمندی کا اظہار کررہے ہیں، مگر افسوس سرکار اس کے ازالے میں ناکام ہے۔
انھوں نے کہا کہ تقسیم وطن کے وقت بھی حالات بہت خراب تھے ، اس دور کے قائدین بالخصوص مجاہد ملتؒ نے بڑی پامردی سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ اس لیے ہمیں ان سے رہ نمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ایک روشن تاریخ ہے، اس جماعت کے اکابر، امت کے اساطین اور نمونہ تھے، آج جس قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس طرح کی طاقتیں ماضی میں کم نہ تھیں، اس وقت مولانا آزادؒ اور مولانا حفظ الرحمنؒ نے ان سے سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا، آج بھی اسی حوصلہ اور قیادت کی ضرورت ہے۔
مشہور مورخ مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے کہا مولانا حفظ الرحمن ؒ شروع سے ہی بہت جرات مند او رباحوصلہ تھے اور بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ مجاہد ملت کے خطاب کے سچے حق دار تھے، سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے مولانا کے بارے میں کہا تھا کہ لیڈر دولت اور حکومت سے نہیں بنتا بلکہ لیڈر پیدا ہوتا ہے، یہ خصوصیت مولانا پر منطبق ہوتی ہے۔