پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، دونوں ممالک کئی دہائیوں سے مضبوط تعلقات کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، ان تعلقات کو صرف مفادات کے حصول کے لئے سبوتاژ نہیں جاسکتا۔
حالیہ عرصے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان جاری کچھ گرما گرمی کے پیش نظر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لئے سعودی عرب کا رخ کیا۔
جنرل باجوہ نے پاکستان کے ہمسایہ ممالک اور دوسرے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو حالیہ برسوں میں خرابی کی جانب گامزن ہوگئے تھے، اور ملک کو سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب آرمی چیف تعلقات کو بہتر بنانے اور کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ایک بار پھر میدان عمل میں آگئے ہیں۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نیسعودیہ کی زیرقیادت او آئی سی کی جانب سے کشمیر سے متعلق اجلاس بلانے میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا اور اس حوالے سے سخت موقف اختیار کیا، انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر کو اٹھانے اور بھارتی مظالم کی مذمت کرنے سے انکار کیا تو پاکستان مختلف سمت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
وزیر خارجہ کی جانب سے سعودیہ عرب کے حوالے دیئے گئے بیان پر میڈیا پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب پاکستان کی معاشی مدد روک دے گا، واضح رہے کہ وزیر اعظم بیل آؤٹ کو محفوظ بنانے اور ادائیگیوں کے بحران کو روکنے کے لئے سعودی عرب کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔ سعودیہ پاکستان کی مدد کے لئے ہمیشہ سے آگے رہا ہے اور پاکستان کو ادھار تیل خریدنے کی سہولت بھی فراہم کی ہے۔
مذہبی و سیاسی اہمیت سے بالا تر ہوکر معاشی مدد کے باعث بھیپاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سعودی عرب کو بھی اس بات کا احساس ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کشمیر پر او آئی سی سربراہی اجلاس کے انعقاد پر اپنا اصرار کم کرے۔
پاکستان کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا او آئی سی کا کشمیر سے متعلق اجلاس سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے قابل ہے؟ اس میں محض بیانات سے زیادہ کچھ حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس سے کشمیر کی آزادی یا بھارتی مظالم کو روکنے کا امکان نہیں ہے۔اس حوالے سے حکومت کو سعودیہ کو پریشان کرنے کے بجائے کوئی دوسرا راستہ نکالنا ہوگا۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر سعودیہ سے تعلقات کشیدہ ہوگئے تو وزیر اعظم اس کے بعد کی صورتحال کو قابو کر پائیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ جنرل باجوہ جو ہر قسم کے حالات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس وقت سعودیہ میں موجود ہیں، پاکستان کا اس حوالے سے دعویٰ ہے کہ ہماری دشمنی نہیں ہے صرف غلط فہمی ہوئی ہے، لیکن یہ بات ماننی ہوگی کہ پاکستان سعودیوں کے ساتھ خراب تعلقات رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔