حکومت کی جانب منشیات کی روک تھام اورزیادتی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے ایپ متعارف کروائی ہے جس کا نام ’زندگی‘ رکھا گیا ہے، وزیراعظم نے گزشتہ روز زندگی ایپ کے افتتاح کے موقع پر منشیات اور زیادتی واقعات کی روک تھام کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے والدین، ٹیچرز اور علما کرام سمیت پوری قوم کو منشیات اور زیادتی کی لعنت کیخلاف جہاد میں شامل ہونے کا پیغام دیا۔
پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں منشیات فروشوں کے منظم گروہ سرگرم ہیں جس کے باعث نوجوانوں میں منشیات کااستعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے،منشیات کا استعمال انسان کو معاشرے کا ایک بےکار فرد بنا دیتا ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے معاشرے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ منشیات کا عادی فرد خود کے لئے فائدہ مند رہتا ہے اور نہ ہی اوروں کے لئے اور جب معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد اس نشے کی لت میں پڑ جائے تواس کا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگتا ہے۔
پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں منشیات کی دستیابی عام ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کا حصول کوئی مشکل نہیں، تعلیمی اداروں میں استعمال ہونے والی منشیات میں کرسٹل، افیون، چرس، ہیروئین، شراب، آئس اور دیگر نشہ آور اشیاء باآسانی دستیاب ہیں۔تعلیمی ادارو ں میں لڑکے اور لڑکیاں بلاتفریق نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔
نشے کے عادی یہ نوجوان طلبہ منشیات خریدنے کیلئے اکثر جرائم کاارتکاب بھی کرتے ہیں ،لڑکے چوری اور دیگر جرائم جبکہ لڑکیاں جسم فروشی تک پہنچ جاتی ہیں، تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے منشیات فروشوں کوملک کے مستقبل کیساتھ کھیلنے کی کھلی چھوٹ ہے۔
متعلقہ ادارے بار بار اس اہم مسئلے کو اٹھائے جانے کے باوجود مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،”شیشہ“کی وبا پھیلنے پرحکومت کی جانب سے عائد پابندی کے باوجود آ ج بھی شیشہ کا نشہ عام ہےجبکہ اب آئس اور کرسٹل میتھ کا نشہ بھی نوجوان نسل میں مقبول ہوچکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے جس میں کم عمر بچوں سے لے کر بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے قوانین موجود ہیں اس کے باوجود منشیات کی لعنت تیزی کے ساتھ معاشرے کو کھوکھلا کررہی ہے۔
پولیس کی جانب سے منشیات کے عادی افراد کو منشیات فروش ظاہر کر کے گرفتار کیاجاتا ہے لیکن منشیات فروشی کے ان کےپس پشت کار فرما بااثر افراد پر پولیس ہاتھ نہیں ڈالتی اوریہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبہ میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر اور گائوں ایسا ہو گا جہاں بچوں کے ساتھ جرائم کے واقعات رونما نہ ہورہے ہوں ۔ موجودہ حالات میں بچوں کو اسکول میں پڑھانااور محفوظ طریقے سے گھر لانا بھی ایک مشکل ترین کام بن چکاہے ۔حالیہ واقعات کے بعد سگے رشتہ دار وں پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہوچکا ہے۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنا پولیس کے بس کی بات نہیںہے کیونکہ معاشرے میں ہونیوالے بیشتر جرائم پولیس کی سرپرستی میں ہی ہوتے ہیں۔
فحاشی کے اڈے ‘ ہوٹلوں میں فحش فلموں کی نمائش ‘ بیہودہ سی ڈیز اور منشیات کی فروخت پولیس کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیںہے جبکہ بھٹوں، ورکشاپس، ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پر محنت مزدوری کرنیوالے بچوں کے ساتھ اکثرجنسی زیادتی کی جاتی اور یہی چھوٹے بڑے ہونے کے بعد دوسرے بچوں سے انتقال لیتے ہیں۔
ملک میں کئی گروہ منظم اندازمیں بچوں کو فحش فلمیں دکھا کر ان سے زیادتی کرتے ہیں پھر ان کوبلیک میل کرتے ہیں، دیہی علاقوں میں بچوں سے زیادتی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، انصاف کے نظام کی کمزوری، اخلاقی گراوٹ، معاشر تی رویے اور تفتیشی عملے کی غفلت جیسے عوامل بھی اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین بھی اپنے بچوں کو زیادتی اورمنشیات سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات کریں، بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا جائے تاکہ ایک بچہ اپنے ساتھ ہونیوالے واقعہ پر خود کو ذمہ دار سمجھ کر چھپنے کے بجائے کھل کر اظہار کرے اور والدین کا ہی کام ہے کہ بچوں کی کڑی نگرانی کریں ۔
ایسے نوجوان جنھیں گھر میں توجہ نہیں ملتی وہ باہر پناہ تلاش کرتے ہیں ، والدین کے درمیان تلخی اورعلیحدگی کا شکار گھرانوں کے بچے نشے کی جانب راغب ہوتے ہیں اور ایسے عناصر کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو انھیں نشے کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے محض ایک اپیلی کیشن ہی کافی نہیں ہے، بچوں کو جنسی زیادتی اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے خاتمے کیلئے طلبہ، والدین ، اساتذہ اور پولیس کو مشترکہ لائحہ عمل اپنا کر جدوجہد کرنا ہو گی تب معاشرے میں پھیلے منشیات اور جنسی جرائم کے ناسور پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔