پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے، حکومت اور اپوزیشن جہاں ایک دوسرے پر معاشی بحران، سیاسی بے یقینی اور دیگر مسائل کا الزام لگارہے ہیں، وہیں ملک میں سیکیورٹی کے مسائل بھی صحیح نہیں ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے 7 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائی ہے جس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت تمام قومی سیاسی رہنماؤں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اے پی سی میں شرکت کرنے سے انکار کردیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق اے پی سی میں ملک میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال سمیت اہم اقتصادی اور سیاسی چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اہم قومی سطح کے چیلنجز پر غور و خوض کے لیے تمام سیاسی رہنماؤں کو بلانے کے وزیر اعظم شریف کے فیصلے کو ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی سیاسی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جو اب کئی مہینوں سے غیر یقینی اور ہنگامہ خیزی کا شکار ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والی پی ٹی آئی اب شیخ رشید یا اعظم سواتی کو پارٹی کی نمائندگی کے لیے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیجنے پر غور کررہی ہے۔
2014 کی طرح، موجودہ صورتحال تمام اہم اسٹیک ہولڈرز سے اتفاق رائے کا تقاضا کرتی ہے، خاص طور پر اگر دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ دوسری صورت میں، عسکریت پسند گروپ یہی چاہ رہے ہیں کہ کسی بھی طرح ملک میں جاری بحران سے فائدہ اٹھا لیں۔ اسی لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اس موضوع کو رہنے دیا جائے بلکہ اس بات پر غور کیا جائے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کیسے کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اے پی سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنما اسد عمر نے ایک سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم موجودہ حکومت کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔
یہاں پر اس ملک کی بدقسمتی ظاہر ہوتی ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران بھی سیاستدانوں کو ایک میز پر بیٹھنے نہیں دے رہا۔ یہ پی ڈی ایم کو کلین چٹ دینے کے بجائے پی ٹی آئی کو چاہیئے تھا کہ وہ ملک کو سرفہرست رکھ کر سوچتی اور حکومت کے ساتھ مل کر اِن مشکلات سے نکلنے کیلئے کسی رائے پر اتفاق کرتی۔
پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے معاملے پر بات کرنے کے علاوہ اے پی سی میں اپنا احتجاج بھی درج کراسکتی تھی۔ تاہم، فی الحال تو دونوں فریقین کے درمیان حالات بہتر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔