اسرائیل آخر یہ سب کچھ کیسے کرلیتا ہے، بغیر کسی خوف کے؟ آپ یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے غزہ میں قتل عام جاری ہے، تاہم، اگر آپ کی آواز میں کچھ وزن ہے، اور آپ غزہ میں جاری نسل کشی کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، تو آپ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
بیماری اور قحط کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان غزہ میں جاری قتل عام کی امریکی سرپرستی کے تناظر میں اکثر افراد کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آخر اس کشت و خون کو کیوں روکا نہیں جارہا؟ جوبائیڈن کی ناکامی ایک ایسا سوال ہے جو ہر ایک با ضمیر ذہن میں گردش کررہا ہے۔
دنیا بھر کے خطے کے بشمول ممالک اس وحشیانہ بمباری کو روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں، جس کو بی بی سی نے قیامت خیز قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے ایک سینئر اہلکار نے اسے ”بدترین” تباہی سے تشبیہ دی ہے، اسرائیل لابی کی حمایت کھونے کا خوف بائیڈن کی ہچکچاہٹ کو سمجھنے کے لئے اہم ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی کسی بھی صورت امریکا کی طاقتور اسرائیلی لابی کی حمایت نہیں کھونا چاہتی۔
50 سال سے زیادہ عرصے سے، یہودی اسٹیبلشمنٹ جنگی جرائم کے باوجود اسرائیلی حکومتوں کے لیے امریکی حمایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
یہودی کنٹرول کے حوالے سے مغربی میڈیا بھی اس پہلو کو نظر انداز دیتا ہے کہ کہیں ان پر ”اینٹی سمیٹک“ کا لیبل نہ لگ جائے، اس خیال کی حمایت کرنے والے کافی ثبوت موجود ہیں کہ اسرائیل لابی کا اثر و رسوخ بائیڈن کی فیصلہ سازی کو متاثر کرنے والا ایک اہم عنصر ہے۔
لابی اب کھلے عام اراکین کانگریس کے خلاف مہم چلا رہی ہے جو اسرائیل کے ناقد ہیں۔
موجودہ بحران کے درمیان، ایک اچھا امر یہ ہے کہ بائیڈن جسے اب کھلے عام ”نسل کش جو“کا نام دیا جارہا ہے، بائیڈن بھی غزہ سے ابھرنے والی المناک تصاویر کو مزید نظر انداز نہیں کرسکتا اور اسے جنگ بندی کی طر ف جانا ہوگا۔