ایک اور آئینی بحران؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا "یومِ قیامت طیارہ" حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد پاکستان میں ایک اور آئینی بحران جنم لے رہا ہے،جسے سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت کے دور میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ صدر نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان کے عملے نے ان کے احکامات کو ”مسترد” کیا۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔بل، جو صدر عارف علوی کو توثیق کے لیے بھیجے گئے تھے، ان کا مقصد مبینہ طور پر آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنا تھا تاکہ بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے کی روشنی میں انہیں مزید موثر بنایا جا سکے اور سرکاری دستاویزات کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

بلوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ‘کہیں بھی اور کسی بھی وقت’ بغیر وارنٹ کے تلاشی لینے کے اختیارات بھی دیے گئے اور اہلکاروں کو ریٹائرمنٹ، استعفیٰ یا برطرفی کے دو سال کے اندر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کیا گیا۔اگر کوئی بھی شخص اپنے سرکاری فرائض کے دوران حاصل کردہ معلومات کو لیک کرنے کا مجرم پایا گیا جو کہ پاکستان کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو مسلح افواج کے ترمیم شدہ آرمی ایکٹ کے تحت پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

حزب اختلاف کی واحد جماعت پاکستان تحریک انصاف نے حکومت پر آئین کی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ بل ”غیر ملکی طاقتوں ” کی طرف سے پاکستان کی جمہوریت میں مداخلت کی سازش کا حصہ تھے۔ دوسری جانب سابقہ مخلوط حکومت نے قومی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے بلوں کا دفاع کیا۔

بڑھتے ہوئے آئینی بحران نے صدر کے کردار اور اختیارات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک رسمی سربراہ مملکت کے طور پر کام کریں اور قانون سازی کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔اس نے حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ سویلین اور فوجی اداروں کے درمیان دراڑ اور تناؤ کو بھی بے نقاب کیا ہے۔توقع ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کرے گی اور بلوں کی قانونی حیثیت اور جواز پر فیصلہ کرے گی۔ کیس کا نتیجہ ملک کے سیاسی استحکام اور جمہوری مستقبل کے لیے اہم مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔

Related Posts