اور بینچ ٹوٹ گیا

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کی پاکستانی میڈیا پر جس طرح کوریج دیکھنے کو ملتی ہے، شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہو۔

کہا جاتا ہے کہ ججز نہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں، جج کا کام قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن جب فیصلے نہیں ہوتے تو وہی ہوتا ہے جو آج کل ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں کہ ججز کے مابین اختلافات ہیں، بینچ بن اور ٹوٹ رہے ہیں، لیکن فیصلے ہوتے نظر نہیں آتے۔

جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کی تاریخ دے دی تو اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الیکشن کروائے جاتے، تاہم ایسا نہیں ہوا۔ وفاقی کابینہ نے قانون بنایا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کیسے کیا جائے؟ کیونکہ وہ جو فیصلے کر رہے تھے، حکومت کو منظور نہ تھے۔

تاہم پارلیمنٹ تو پارلیمنٹ ہے، اس کے خلاف کون بولے؟ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ گول مول ہوگیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ حکومت 2 مہینے کی مہمان ہے، عزت سے کام کرکے گھر جائے، تاہم وفاقی وزراء کی آئے روز پریس کانفرنسز سے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔

یہ دلچسپ معرکہ بھی گزشتہ روز ہوا کہ سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا، حالانکہ جب یہ بینچ بنا تھا اور اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا گیا تو کتنے ہی تجزیہ کار بڑی آسانی سے یہ سمجھ گئے تھے کہ یہ ساجھے کی ہنڈیا ہے، چوراہے میں ہی پھوٹے گی۔ یا تو اس مقدمے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، یا پھر اس بینچ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

پھر ہوا کچھ یوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو بینچ میں بیٹھ کر مقدمے کا فیصلہ کرنے سے معذرت کر لی اور بعض ایسے معاملات اٹھائے جن میں ہمارے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبینہ طور پر بائی پاس کیا گیا تھا، ان کے ساتھ ساتھ جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

تاہم موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہار نہیں مانی اور 7 رکنی بینچ تشکیل دے کر مقدمے کی سماعت ایک بار پھر شروع کی جبکہ معاملہ بھی حساس نوعیت کا تھا یعنی سول مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کے خلاف 4 درخواستوں کی سماعت کی گئی۔

کیس کا فیصلہ جو بھی ہو، یہاں یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اگر ججز کے باہمی اختلافات اور سیاسی دباؤ کے زیرِ اثر کیے جائیں تو عوام کا عدلیہ سے اعتماد کم ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں اور ان کے معزز جج صاحبان کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور ایک ایسی حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ بصورتِ دیگر صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ 

 

Related Posts