پاکستان کی تاریخ میں آج کا دن انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے، آج قومی اسمبلی میں 22 ویں منتخب وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور تحریک کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر ملک میں واضح کشیدگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ووٹنگ کے روز لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں جمع ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے علاقائی رہنماؤں نے بھی کارکنوں کو گھروں سے نکلنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے، اگر ایوان یہ سمجھتا ہے کہ وزیراعظم درست انداز سے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں ناکام ہوچکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ذریعے اس وزیراعظم کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ماضی کی پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور شوکت ترین عدم اعتماد کی تحاریک کا سامنا کرچکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے منصب چھوڑنے والے پہلے وزیراعظم ہونگے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت عوام کو گھروں سے نکلنے کا پیغام دیکر ایک افسوسناک اقدام اٹھایا ہے۔
پاکستان اس وقت ملکی و غیر ملکی سطح پر بڑے چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور اگر ایسے حالات میں ملک کے کسی بھی حصے میں غیر ریاستی عناصر کوئی شرپسندی کرتے ہیں تو موجودہ حالات میں ایک چھوٹی سی چنگاری بھی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
بطور وزیراعظم عمران خان کو قوم کو صبر و تحمل کا پیغام دینا چاہیے تاکہ ملک میں کشیدگی یا انارکی نہ پھیلے کیونکہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے حامیوں کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے تو مٹھی بھر سیکورٹی اہلکاروں کیلئے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہوجائیگا جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلے گا اور اس کے نتائج بہت سنگین ہوسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے پہلے آنیوالے 21 وزرائے اعظم میں سے کوئی بھی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا تاہم ملک میں گزشتہ چند سال سے جمہوری نظام فعال ہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی نظام کی بساط لپیٹی جاسکتی ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان ہمیشہ اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ وہ مستقبل کیلئے منصوبے بناتے ہیں تو انہیں آج ہونیوالے عدم اعتماد کیلئے تیار رہنا چاہیے اور اپنے حامیوں کو بھی بردباری سے ہر طرح کی صورتحال سے بچاؤ کیلئے ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہیے۔ ہار جیت کو قبول کرنا ایک اچھے کھلاڑی کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر آپ ہار جائیں تو نتائج ماننے سے بھی انکار کردیں۔
آخر میں عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہار اور جیت کو کھلے دل سے قبول کریں اور بالفرض نتیجہ حق میں نہیں آتا تو خود کو دوسری اننگ کیلئے تیار کریں۔ دوبارہ پوری قوت سے میدان میں اتریں اور یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے لیکن اگر ملک میں انارکی پھیلتی ہے تو اس کے اثرات بہت گہرے ہونگے جن سے نکلنا تمام سیاسی جماعتوں کیلئے مشکل ہوسکتا ہے۔